Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ وَٱذْكُرُوا۟ ٱللَّهَ فِىٓ أَيَّامٍۢ مَّعْدُودَٰتٍۢ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِى يَوْمَيْنِ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ ٱتَّقَىٰ ۗ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴾
“And bear God in mind during the appointed days; but he who hurries away within two days shall incur no sin, and he who tarries longer shall incur no sin, provided that he is conscious of God. Hence, remain conscious of God, and know that unto Him you shall be gathered.”
اصل چیز اللہ کا تقویٰ ہے۔ کسی کے اندر یہ مطلوب حالت موجود ہو تو اس کے بعد حج کے دوران معاشی ضرورت کے تحت اس کا کچھ کاروبار کرلینا یا بعض مراسم حج کی ادائیگی میں کسی کا آگے یا کسی کا پیچھے ہوجانا کوئی حرج پیدا نہیں کرتا۔ حج کے دوران جو فضا جاری رہنی چاہيے وہ ہے اللہ کا خوف، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ۔ حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہيے جو ان کیفیات کے خلاف ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے لیے عبادت کی ادائیگی كے موقع پر اپني برتري كا اظهار يا آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرنا وغيره، بالواسطہ طور پر اپنے کو نمایاں کرنے کی ایک صورت ہے۔ یہ چیزیں ایک ایسی عبادت کے ساتھ بے جوڑ ہیں جو یہ بتاتی ہو کہ تمام انسان یکساں ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جاتا ہو کہ تمام بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ حج کے زمانہ میں بھی اگر آدمی ان چیزوں کی تربیت حاصل نہ کرے تو زندگی کے بقیہ لمحات میں وہ کس طرح ان پر قائم ره سکے گا۔ دعائیں، خاص طورپر حج کی دعائیں، آدمی کی اندرونی حالت کا اظہار ہیں۔ کوئی شخص آخرت کی عظمتوں کو اپنے دل میں ليے ہوئے جی رہا ہو تو حج کے مقامات پر اس کے دل سے آخرت والی دعائیں ابلیں گی۔ اس کے برعکس، جو شخص دنیا کی چیزوں میں اپنا دل لگائے ہوئے ہو، وہ حج کے مواقع پر اپنے خدا سے سب سے زیادہ جو چیز مانگے گا وہ وہی ہوگی جس کی تڑپ ليے ہوئے وہ وہاں پہنچا تھا۔ اور سب سے بہتر دعا تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب سے کہے کہ خدایا دنیا میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو دنیا میںدے دے اور آخرت میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو آخرت میں دے دے اور اپني ناراضگي سے مجھ کو بچالے۔ ’’تم اسی کے پاس اكٹھا کيے جاؤ گے‘‘ یہ حج کا سب سے بڑا سبق ہے جو عرفات کے میدان میں دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے دیا جاتا ہے۔ عرفات کا اجتماع قیامت کے اجتماع کی ایک تمثیل ہے۔