slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 204 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُۥ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَيُشْهِدُ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا فِى قَلْبِهِۦ وَهُوَ أَلَدُّ ٱلْخِصَامِ ﴾

“NOW THERE IS a kind of man whose views on the life of this world may please thee greatly, and [the more so as] he cites God as witness to what is in his heart and is, moreover, exceedingly skillful in argument.”

📝 التفسير:

جو شخص مصلحت کو اپنا دین بنائے اس کی باتیں ہمیشہ لوگوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر اس کے مطابق بولتا ہے، نہ کہ یہ دیکھ کر کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ اس کے سامنے کوئی مستقل معیار نہیں ہوتا۔ اس ليے وہ مخاطب کی رعایت سے ہر وہ انداز اختیار کرلیتا ہے جو مخاطب پر اثر ڈالنے والا ہو۔ حق کا وفادار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے یہ مشکل نہیں رہتا کہ دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہ ہو تے ہوئے بھی وہ زبان سے خوب صورت باتیں کرے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بات کے اسٹیج پر وہ مصلح کے روپ میں نظر آتا ہے اور عمل کے میدان میں اس کی سرگرمیاں فساد کا باعث بن جاتی ہیں۔اس کی وجہ اس کا تضاد ہے۔ عملی نتائج ہمیشہ عمل سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ الفاظ سے۔ وہ اگرچہ زبان سے حق پرستی کے الفاظ بولتا ہے۔ مگر عمل کے اعتبار سے وہ جس سطح پر ہوتاہے وہ صرف ذاتی مفاد ہے۔ یہ چیز اس کے قول وعمل میں فرق پیدا کردیتی ہے۔ بات کے مقام سے ہٹ کر جب وہ عمل کے مقام پر آتا ہے تو اس کے مفاد کا تقاضا کھینچ کر اس کو ایسی سرگرمیوں کی طرف لے جاتاہے جو صرف تخریب پیدا کرنے والی ہیں۔ یہاں وہ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر دوسروں کا استحصال کرتاہے۔ وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو جذباتی باتوں کی شراب پلاتاہے۔ وہ اپنی قیادت قائم کرنے کی خاطر پوری قوم کو داؤ پر لگا دیتاہے۔ وہ تعمیر کے بجائے تخریب کی سیاست چلاتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح زیادہ آسانی سے عوام کی بھیڑ اپنے گرد اكٹھا کی جاسکتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کے مفاد اور مصلحت کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کیا۔ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنے وقار کا بت ٹوٹتاہوا نظر آتاہے۔ ظاہری طورپر نرم باتوں کے پیچھے ان کی متکبرانہ نفسیات ان کو ایک ایسے حق كے داعي کے سامنے جھکنے سے روک دیتی ہے جس کو وہ اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی رضا کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کرتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے عادات و خیالات سے دست بردار ہو کر خدا کی باتوں کو قبول کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے حوالے کرکے اس کے بدلے بے مال بن جانے کو گوارا کرلیتاہے۔ وہ رواجی دین کو رد کرکے خدا کے بے آمیز دین کو لیتاہے، خواہ اس کی وجہ سے اس کو غیر مقبولیت پر راضی ہونا پڑے۔ وہ مصلحت پرستی کے بجائے اعلان حق کو اپنا شیوہ بناتا ہے، اگرچہ اس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کے عتاب کا شکار ہوتا رہے۔