slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 211 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ سَلْ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ كَمْ ءَاتَيْنَٰهُم مِّنْ ءَايَةٍۭ بَيِّنَةٍۢ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴾

“Ask the children of Israel how many a clear message We have given them! And if one alters God's blessed message after it has reached him - verily, God is severe in retribution!”

📝 التفسير:

اسلام کو اختیار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ تحفظات اور مصلحتوں کا لحاظ کيے بغیر اس کو اپنایا جائے۔ اسلام جس چیز کو کرنے کو کہے اس کو کیا جائے اور جس چیز کو چھوڑنے کو کہے اس کو چھوڑدیا جائے۔ یہ کسی آدمی کا پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اسی حد تک اختیار کرے جس حد تک اسلام اس کی زندگی سے ٹکراتا نہ ہو۔ وہ اس اسلام کو لے لے جو اس کے لیے مفید یا کم از کم بے ضرر ہو۔ اور اس اسلام کو چھوڑے رہے جو اس کے محبوب عقائد، اس کی پسندیدہ عادات، اس کے دنیوی فائدے، اس کے شخصی وقار، اس کی قائدانہ مصلحتوں کو مجروح کرتا ہو۔ آدمی ابتداء ً پوری طرح ارادہ کرکے اسلام کو اختیار کرتاہے۔ مگر جب وہ وقت آتاہے کہ وہ اپنے فکری ڈھانچہ کو توڑے یا اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے اسلام کا ساتھ دے تو وہ پھسل جاتا ہے۔ وہ ایسے اسلام پر ٹھہر جاتاہے جس میں اس کے مفادات بھی مجروح نہ ہوں اور اسلام کا تمغہ بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ اسلام کے پیغام کی صداقت پر یقین کرنے کے لیے اگر وہ دلائل چاہتے ہیں تو دلائل پوری طرح ديے جاچکے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کو معجزات دکھائے جائیں تو جو شخص کھلے کھلے دلائل کو نہ مانے اس کو چپ کرنے کے لیے معجزات بھی ناکافی ثابت ہوں گے۔ اس کے بعد آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ یہ کہ خدا اپنے فرشتوں کے ساتھ سامنے آجائے۔ مگر جب ایسا ہوگا تو وہ کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ فیصلہ کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔ انسان کا امتحان یہی ہے کہ وہ دیکھے بغیر محض دلائل کی بنیاد پر مان لے۔ اگر اس نے دیکھ کر مانا تو اس ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔ وہ لوگ جو مصلحتوں کو نظر انداز کرکے اسلام کو اپنائیں اور وہ لوگ جو مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے مسلمان بنیں، دونوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے۔ پہلا گروہ اکثر دنیوی اہمیت کی چیزوں سے خالی ہوجاتا ہے جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ہر قسم کی دنیوی رونقیں جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ چیز دوسرے گروہ کو غلط فہمی میں ڈال دیتی ہے۔ وہ اپنے کو برتر خیال کرتا ہے اور پہلے گروہ کو حقیر سمجھنے لگتاہے۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ موجودہ دنیا کو توڑ کر جب نیا بہتر نظام بنے گا تو وہاں آج کے ’’بڑے‘‘ پست کرديے جائیں گے اور وہی لوگ بڑائی کے مقام پر نظر آئیں گے جن کو آج ’’چھوٹا‘‘ سمجھ لیا گیا تھا۔