slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 213 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةًۭ وَٰحِدَةًۭ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّۦنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلْكِتَٰبَ بِٱلْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۚ وَمَا ٱخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لِمَا ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ مِنَ ٱلْحَقِّ بِإِذْنِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ يَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍ ﴾

“ALL MANKIND were once one single community; [then they began to differ -] whereupon God raised up the prophets as heralds of glad tidings and as warners, and through them bestowed revelation from on high, setting forth the truth, so that it might decide between people with regard to all on which they had come to hold divergent views. Yet none other than the selfsame people who had been granted this [revelation] began, out of mutual jealousy, to disagree about its meaning after all evidence of the truth had come unto them. But God guided the believers unto the truth about which, by His leave, they had disagreed: for God guides onto a straight way him that wills [to be guided].”

📝 التفسير:

دین میں اختلاف تعبیر وتشریح کے اختلاف سے شروع ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنے ذہنی سانچہ کے مطابق خدا کے دین کا ایک تصور قائم کرلیتا ہے۔ ایک ہی کتابِ ہدایت کو مانتے ہوئے بھی لوگوں کی رائیںالگ الگ ہوجاتی ہیں۔ اس وقت اللہ اپنے چنے ہوئے بندے کے ذریعہ امر حق کا اعلان کراتا ہے۔ یہ آواز اگر چہ انسان کی زبان میں ہوتی ہے اور بظاہر عام آدمیوں جیسے ایک آدمی کے ذریعہ بلند کی جاتی ہے۔ تاہم جو سچے متلاشیٔ حق ہیں وہ اس کے اندر شامل خدائی گونج کو پہچان لیتے ہیں اور اپنے اختلاف کو بھول کر فوراً اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اپنے خود ساختہ دین کے ساتھ اپنے کو اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ میں دوسرے کی بات کیوں مانوں۔ اس کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی چیز کا انکار کردیتا ہے جس کا وہ اپنے خیال کے مطابق علم بردار بناہوا تھا۔ حق جب روشن دلائل کے ساتھ آجائے اور اس کے باوجود آدمی اس کا ساتھ نہ دے تو اس کی وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو نظر آتاہے کہ اس کا ساتھ دینے میں اس کی خوش گمانیوں کا محل ڈھ جائے گا۔ اس کے مفادات کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ اس کی آسودہ زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اس کاوقار باقی نہیں رہے گا۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو اللہ کو اپنے وفادار بندوں سے مطلوب ہے۔ جس راستہ کی دشواریوں سے گھبرا کر آدمی اس پر آنا نہیں چاہتا وہی وہ راستہ ہے جو جنت کی طرف لے جانے والا ہے۔ جنت کی واحد قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے۔ آدمی اپنے وجود کو فکر وعمل کے جن نقشوں کے حوالے کيے ہوئے ہے وہاں سے اکھاڑ کر جب وہ اس کو خدا کے نقشہ میں لانا چاہتا ہے تو اس کی پوری شخصیت ہل جاتی ہے۔ اس میں اس وقت اور زیادہ اضافہ ہوجاتاہے جب کہ اس کے ساتھ وہ خدا کے دین کا داعی بن کر کھڑا ہوجائے۔ داعی بننا بالفاظ دیگر دوسروں کے اوپر ناصح اور ناقد بننا ہے اور اپنے خلاف نصیحت اور تنقید کو سننا ہر زمانہ میں انسان کے لیے مبغوض ترین امر رہاہے۔ اس کے نتیجہ میں مدعوکی طرف سے اتنا شدید رد عمل سامنے آتاہے جو داعی کے لیے ایک بھونچال سے کم نہیں ہوتا۔