slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 214 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا۟ ٱلْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوْا۟ مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ ٱلْبَأْسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوا۟ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصْرُ ٱللَّهِ ۗ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌۭ ﴾

“[But] do you think that you could enter para-dise without having suffered like those [believers] who passed away before you? Misfortune and hardship befell them, and so shaken were they that the apostle, and the believers with him, would exclaim, "When will God's succour come?" Oh, verily, God's succour is [always] near!”

📝 التفسير:

دین میں اختلاف تعبیر وتشریح کے اختلاف سے شروع ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنے ذہنی سانچہ کے مطابق خدا کے دین کا ایک تصور قائم کرلیتا ہے۔ ایک ہی کتابِ ہدایت کو مانتے ہوئے بھی لوگوں کی رائیںالگ الگ ہوجاتی ہیں۔ اس وقت اللہ اپنے چنے ہوئے بندے کے ذریعہ امر حق کا اعلان کراتا ہے۔ یہ آواز اگر چہ انسان کی زبان میں ہوتی ہے اور بظاہر عام آدمیوں جیسے ایک آدمی کے ذریعہ بلند کی جاتی ہے۔ تاہم جو سچے متلاشیٔ حق ہیں وہ اس کے اندر شامل خدائی گونج کو پہچان لیتے ہیں اور اپنے اختلاف کو بھول کر فوراً اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اپنے خود ساختہ دین کے ساتھ اپنے کو اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ میں دوسرے کی بات کیوں مانوں۔ اس کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی چیز کا انکار کردیتا ہے جس کا وہ اپنے خیال کے مطابق علم بردار بناہوا تھا۔ حق جب روشن دلائل کے ساتھ آجائے اور اس کے باوجود آدمی اس کا ساتھ نہ دے تو اس کی وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو نظر آتاہے کہ اس کا ساتھ دینے میں اس کی خوش گمانیوں کا محل ڈھ جائے گا۔ اس کے مفادات کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ اس کی آسودہ زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اس کاوقار باقی نہیں رہے گا۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو اللہ کو اپنے وفادار بندوں سے مطلوب ہے۔ جس راستہ کی دشواریوں سے گھبرا کر آدمی اس پر آنا نہیں چاہتا وہی وہ راستہ ہے جو جنت کی طرف لے جانے والا ہے۔ جنت کی واحد قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے۔ آدمی اپنے وجود کو فکر وعمل کے جن نقشوں کے حوالے کيے ہوئے ہے وہاں سے اکھاڑ کر جب وہ اس کو خدا کے نقشہ میں لانا چاہتا ہے تو اس کی پوری شخصیت ہل جاتی ہے۔ اس میں اس وقت اور زیادہ اضافہ ہوجاتاہے جب کہ اس کے ساتھ وہ خدا کے دین کا داعی بن کر کھڑا ہوجائے۔ داعی بننا بالفاظ دیگر دوسروں کے اوپر ناصح اور ناقد بننا ہے اور اپنے خلاف نصیحت اور تنقید کو سننا ہر زمانہ میں انسان کے لیے مبغوض ترین امر رہاہے۔ اس کے نتیجہ میں مدعوکی طرف سے اتنا شدید رد عمل سامنے آتاہے جو داعی کے لیے ایک بھونچال سے کم نہیں ہوتا۔