Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌۭ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًۭٔا وَهُوَ خَيْرٌۭ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰٓ أَن تُحِبُّوا۟ شَيْـًۭٔا وَهُوَ شَرٌّۭ لَّكُمْ ۗ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾
“FIGHTING is ordained for you, even though it be hateful to you; but it may well be that you hate a thing the while it is good for you, and it may well be that you love a thing the while it is bad for you: and God knows, whereas you do not know.”
انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کے جان اور مال کے استعمال کا بہترین مصرف اس کے بیوی بچے ہیں۔ وہ اپنے اثاثہ کو اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں میں لٹا کر خوش ہوتاہے۔ اس کے برعکس شریعت یہ کہتی ہے کہ اپنے جان اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ دونوں مدیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک خود اپنے اوپر خرچ کرنا ہے اور دوسرا غیروں کے اوپر۔ ایک اپنی طاقت کو دنیا کی ظاہری چیزوں کے حصول پرلگانا ہے اور دوسرا آخرت کی نظر نہ آنے والی چیزوں پر۔ مگر انسان کو جو چیز ناپسند ہے وہی اللہ کی نظر میں بھلائی ہے۔ کیوں کہ وہ اس کی اگلی وسیع تر زندگی میں اس کو نفع دینے والی ہے۔ اور انسان کو جو چیز پسند ہے وہ اللہ کی نظر میں برائی ہے۔ کیوں کہ اس کا جو کچھ فائدہ ہے اسی عارضی دنیا میں ہے، آخرت میں اس سے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔ یہی اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے صحیح ہے — آدمی آزاد اور بے قید زندگی کو پسند کرتاہے، حالاں کہ اس کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی رسی میں باندھ کر رکھے۔ آدمی اپنی تعریف کرنے والے کو دوست بناتا ہے، حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو اپنا دوست بنائے جو اس کی غلطیوں کو اسے بتاتا ہو۔ آدمی ایک حق کو ماننے سے انکار کرتاہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس طرح اس نے لوگوں کی نظر میں اپنے وقار کو بچا لیا۔ حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر یہ تھا کہ وہ اپنی عزت کو خطرہ میں ڈال کر کھلے دل سے حق کا اعتراف کر لے۔ آدمی محنت اور قربانی والے دین سے بے رغبت رہتاہے اور اس دین کو لے لیتاہے جس میں معمولی باتوں پر جنت کی خوش خبری مل رہی ہو۔ حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر تھا کہ وہ محنت اور قربانی والے دین کو اختیار کرتا۔ آدمی ’’زندگی‘‘ کے مسائل کو اہمیت دیتاہے، حالاں کہ زیادہ بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی ’’موت‘‘ کے مسائل کو اہمیت دے۔ ’’اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان سطحی جذبات و محرکات سے بلند ہے جن سے بلند نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی رائے متاثر رائے بن جاتی ہے ۔ وہ صحیح رُخ کو چھوڑ کر غلط رخ کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اللہ کا فیصلہ ہر قسم کی غیر متعلق چیزوں کی ملاوٹ سے پاک ہے ۔ اس كا فيصله بے آمیز فیصلہ ہے۔ اس ليے اس کے برحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ انسان کے فیصلے طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے مغلوب رہتے ہیں۔ وہ پست محرکات کے زیر اثر رائیں قائم کرتا ہے، اس ليے انسان کی رائے اکثر اوقات نہ مبنی برحق ہوتی ہے اور نہ مطابق واقعہ۔ خدا جو کہے اسی کو تم حق سمجھو اور اس کے مقابلہ میں اپنے خیال کو چھوڑ دو۔