Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱلَّذِينَ هَاجَرُوا۟ وَجَٰهَدُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أُو۟لَٰٓئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ ٱللَّهِ ۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴾
“Verily, they who have attained to faith, and they who have forsaken the domain of evil and are striving hard in God's cause - these it is who may look forward to God's grace: for God is much-forgiving, a dispenser of grace.”
رجب 2 ہجری میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلمانوں کے ایک دستہ اور مشرکین قریش کی ایک جماعت کے درمیان ٹکراؤ ہوگیا۔ یہ واقعہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں پیش آیا۔ قریش کا ایک آدمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ یہ جمادی الثانی کی 30 تاریخ ہے۔ مگر چاند 29 کا ہوگیا تھا اور وہ رجب کی پہلی تاریخ تھی۔رجب کا مہینہ ماہ حرام میں شمار ہوتا ہے اور صدیوں کے رواج سے اس معاملہ میں عربوں کے جذبات بہت شدید تھے۔ اس طرح مخالفین کو موقع مل گیا کہ وہ مسلمانوں کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کریں کہ یہ لوگ حق پرستی سے اتنا دور ہیں کہ حرام مہینوں کی حرمت کا بھی خیال نہیں کرتے۔ جواب میں کہاگیا کہ ماہ حرام میں لڑنا یقیناً گناہ ہے۔ مگر مسلمانوں سے یہ فعل تو بھول سے اور اتفاقاً ہوگیا اور تم لوگوں کا حال یہ ہے کہ جان بوجھ کر اور مستقل طورپر تم اس سے کہیں زیادہ بڑے جرم کررہے ہو۔ تمھارے درمیان اللہ کی پکار بلند ہوئی ہے مگر تم اس کو ماننے سے انکار کررہے ہو اور دوسروں کو بھی اس کو اختیار کرنے سے روکتے ہو۔ تمھارے ضد اور عناد کا یہ حال ہے کہ اللہ کے بندوں کے اوپر اللہ کے گھر کا دروازہ بند کرتے ہو، ان کو ان کے اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہو۔ حتی کہ جو لوگ اللہ کے دین کی طرف بڑھتے ہیں ان کو طرح طرح سے ستاتے ہو تاکہ وہ اس کو چھوڑ دیں۔ حالاں کہ کسی کو اللہ کے راستہ سے ہٹانا اس کو قتل کردینے سے بھی زیادہ برا ہے — اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے کہ آدمی خود بڑی بڑی برائیوں میں مبتلا ہو اور دوسرے کی ایک معمولی خطا کو پاجائے تو اس کو شہرت دے کر اس کو بد نام کرے۔ مخالفتوں کا یہ نتیجہ ہوتاہے کہ اہل ایمان کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ دین پر قائم رہنے کے لیے ان کو جہاد کی حد تک جانا پڑتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے جو خدا پرستوں او رخدا دشمنوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتاہے۔ اس طرح ایک طرف یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے نہیں بلکہ اپنی ذات کے پجاری ہیں۔ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اللہ سے بے خوف ہو کر اللہ کے بندوں کو ستاتے ہیں۔ دوسری طرف اسی واقعہ کے درمیان ایمان اور ہجرت اور جہاد کی نیکیاں ظہور میں آتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے حالات کی شدت کے باوجود اللہ پر اپنے بھروسہ کو باقی رکھا اور کس نے ا س کو کھودیا۔