Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا تَجْعَلُوا۟ ٱللَّهَ عُرْضَةًۭ لِّأَيْمَٰنِكُمْ أَن تَبَرُّوا۟ وَتَتَّقُوا۟ وَتُصْلِحُوا۟ بَيْنَ ٱلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ﴾
“AND DO NOT allow your oaths in the name of God to become an obstacle to virtue and God-consciousness and the promotion of peace between men: for God is all-hearing, all-knowing.”
ضد اور غصہ میں کبھی ایک آدمی قسم کھالیتا ہے کہ میں فلاں آدمی کے ساتھ کوئی نیک سلوک نہیں کروں گا۔ قدیم زمانہ میں عربوں میں اس طرح کی قسموں کا بہت رواج تھا۔ وہ ایک بھلائی کا کام یا ایک اصلاح کا کام نہ کرنے کی قسم کھالیتے اور جب ان کو اس نوعیت کے کام کے لیے پکارا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہم تو اس کو نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔یہ کہنا کہ میں بھلائی کا کام نہ کروں گا ، یوں بھی ایک غلط بات ہے اور اس کو خدا کے نام کی قسم کھا کر کہنا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ خدا تو وہ ہستی ہے جو سراپا رحمت اور خیر ہے۔ پھر ایسے خدا کا نام لے کر اپنے کو رحمت اور خیر کے کاموں سے الگ کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے — بگاڑ ہر حال میں برا ہے۔ لیکن اگر بگاڑ کو خدایا اس کے دین کا نام لے کر کیا جائے تو اس کی برائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بعض لوگ قسم کو تکیہ کلام بنا لیتے ہیں اور غیر ارادی طورپر قسم کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ یہ ایک لغو بات ہے اور ہر آدمی کو اس سے بچنا چاہيے۔ تاہم میاں بیوی کے تعلق کی نزاکت کی وجہ سے اس طرح کے معاملات میں ایسی قسم کو قانونی طورپر غیر موثر قرار دیا گیا۔ البتہ وہ کلام جو آدمی سوچ سمجھ کر منھ سے نکالے اور جس کے ساتھ قلبی ارادہ شامل ہوجائے، اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ اس ليے اگر کوئی شخص ارادۃً یہ قسم کھالے کہ میں اپنی عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو اس کو قابل لحاظ قرار دے کر اس کو ایک قانونی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کے احکام مقرر کيے گئے۔ خاندانی نظام میں، خواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے حقوق بھی ہیں اور ہر ایک کی ذمہ داریاں بھی۔ ہر فرد کو چاہيے کہ دوسرے سے اپنا حق لینے کے ساتھ دوسرے کو اس کاحق بھی پوری طرح ادا کرے۔ کوئی شخص اتفاقی حالات یا اپنی فطری بالا دستی سے فائدہ اٹھا کر اگر دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے گا تو وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔