Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَٱلَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَٰجًۭا وَصِيَّةًۭ لِّأَزْوَٰجِهِم مَّتَٰعًا إِلَى ٱلْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍۢ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِى مَا فَعَلْنَ فِىٓ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍۢ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴾
“AND IF any of you die and leave wives behind, they bequeath thereby to their widows [the right to] one year's maintenance without their being obliged to leave [the dead husband's home]. If, however, they leave [of their own accord], there shall be no sin in whatever they may do with themselves in a lawful manner. And God is almighty, wise.”
نماز گویا دین کا خلاصہ ہے۔ نماز مومنانہ زندگی کی وہ مختصر تصویر ہے جو پھیلتی ہے تو مکمل اسلامی زندگی بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مختصر فقرہ میں نماز کے تین اہم ترین اجزاء کو بیان کردیا گیا ہے(1)نماز کا پانچ وقت کے لیے فرض ہونا۔2) (نماز کا ایک قابل اہتمام چیز ہونا۔(3)یہ بات کہ نماز کی اصل حقیقت عجز ہے۔ ’’پابندی کرو نمازوں کی اور پابندی کرو بیچ کی نماز کی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں میں ایک بیچ کی نماز ہے اور پھر اس کے دونوں طرف نمازیں ہیں۔ اس جملہ میں اطراف کی ’’نمازوں‘‘ سے کم از کم چار کا عدد مراد لینا ضروری ہے کیوں کہ عربی زبان میں صلوات (نمازوں) کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔ پہلا ممکن عدد جس میں ’’نمازوں‘‘کے درمیان ایک ’’بیچ کی نماز‘‘ بن سکے چارہی ہے۔ اس طرح ایک نماز بیچ کی نماز ہو کر اس کے دونوں طرف دو دو نمازیں ہوجاتی ہے۔ ’’بیچ کی نماز‘‘ سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے۔ نماز کے دوسرے پہلو کو بتانے کے لیے ’’محافظت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا نماز اسی طرح حفاظت کی ایک چیز ہے جس طرح مال آدمی کے لیے حفاظت کی چیز ہوتا ہے۔ نماز کے اوقات کا پورا لحاظ، اس کو بتائے ہوئے طریقہ پر ادا کرنے کا اہتمام، ایسی چیزوں سے بالقصد پرہیز جو آدمی کی نماز میں کوئی خرابی پیدا کرنے والی ہوں وغیرہ، محافظت نماز میں شامل ہیں۔ نماز کا تیسرا پہلو عجز ہے۔ یہ نماز کی اصل روح ہے، نماز بندے کا اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس ليے ضروری ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے اوپر وہ کیفیت طاری ہو جو سب سے بڑے کے آگے کھڑے ہونے کی صورت میں سب سے چھوٹے کے اوپر طاری ہوتی ہے۔ معاشرت کے احکام بتاتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’یہ حق ہے متقیوں کے اوپر‘‘ شریعت کے ایک اہم پہلو کو ظاہر کرتاہے۔ باہمی معاملات میں کچھ حقوق وہ ہیں جن کو قانون نے متعین کردیا ہے۔ مگر ایک آدمی پر دوسرے کے حقوق کی حدیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ متعین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ یہ حقوق وہ ہیں جن کو آدمی کا تقویٰ اس کو محسوس کراتاہے۔ اور آدمی کا متقیانہ احساس جتنا شدید ہو اتنا ہی زیادہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے۔ اندر کا یہ زوراگر موجود نہ ہو تو آدمی کبھی صحیح طورپر د وسروں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا۔