Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ٱللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًۭا ۚ قَالُوٓا۟ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ ٱلْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِٱلْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةًۭ مِّنَ ٱلْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ ٱللَّهَ ٱصْطَفَىٰهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُۥ بَسْطَةًۭ فِى ٱلْعِلْمِ وَٱلْجِسْمِ ۖ وَٱللَّهُ يُؤْتِى مُلْكَهُۥ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌۭ ﴾
“And their prophet said unto those elders: "Behold, now God has raised up Saul to be your king." They said: "How can he have dominion over us when we have a better claim to dominion than he, and he has not [even] been endowed with abundant wealth?" [The prophet] replied: "Behold, God has exalted him above you, and endowed him abundantly with knowledge and bodily perfection. And God bestows His dominion upon whom He wills: for God is infinite, all-knowing."”
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد بنی اسرائیل اپنے پڑوس کی مشرک قوموں سے مغلوب ہوگئے۔ اسی حال میں تقریباً چوتھائی صدی گزارنے کے بعد ان کو احساس ہوا کہ وہ اپنے پچھلے دور کو واپس لائیں۔ اب اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ان کو ایک امیر لشکر کی ضرورت تھی۔ ان کے نبی سموئیل (1020-1100ق م) نے ان کے لیے ایک شخص کا تقرر کیا جس کا نام قرآن میں طالوت اور بائبل میں ساؤل آیا ہے۔ ذاتی اوصاف کے اعتبار سے وہ ایک موزوں شخص تھا۔ مگر بنی اسرائیل اس کی سرداری قبول کرنے کے بجائے اس قسم کے اعتراضات نکالنے لگے کہ وہ تو چھوٹے خاندان کا آدمی ہے۔ اس کے پاس مال و دولت نہیں۔ مگر اس طرح کی اختلافی بحثیں کسی قوم کے زوال یافتہ ہونے کی علامت ہیں۔ اللہ کے فیصلے وسعت اور علم کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اس ليے وہی بندہ اللہ کا محبوب بندہ ہے جو خود بھی وسیع النظری کا طریقہ اختیار کرے اور جو فیصلہ کرے حقائق کی بنیاد پر کرے، نہ کہ تعصبات اور مصلحتوں کی بنیاد پر۔ تاہم صندوق کو واپس لاکر اللہ نے طالوت کے تقرر کی ایک غیر معمولی تصدیق بھی فرمادی۔ بنی اسرائیل کے یہاں ایک مقدس صندوق تھا جو مصر سے خروج کے زمانہ سے ان کے یہاں چلا آرہا تھا۔ اس میں تورات کی تختیاں اور دوسری متبرک چیزیں تھیں۔ بنی اسرائیل اس کو اپنے ليے فتح وکامیابی کا نشان سمجھتے تھے۔ فلستی اس صندوق کو ان سے چھین کر اٹھا لے گئے تھے۔ مگر اس کو انھوں نے جس جس بستی میں رکھا وہاں وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ اس سے انھوں نے برا شگون لیا اور صند وق کو ایک بیل گاڑی پر رکھ کر ہانک دیا۔ وہ اس کو لے کر چلتے رہے۔ یہاں تک کہ یہودیوں کی آبادی میں پہنچ گئے — اللہ اپنے کسی بندے کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے کبھی اس کے گرد ایسی غیر معمولی چیزیں جمع کردیتا ہے جو عام انسانوں کے ساتھ جمع نہیں ہوتیں۔