Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِٱلْجُنُودِ قَالَ إِنَّ ٱللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍۢ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّى وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُۥ مِنِّىٓ إِلَّا مَنِ ٱغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِيَدِهِۦ ۚ فَشَرِبُوا۟ مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًۭا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُۥ هُوَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ قَالُوا۟ لَا طَاقَةَ لَنَا ٱلْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِۦ ۚ قَالَ ٱلَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَٰقُوا۟ ٱللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍۢ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةًۭ كَثِيرَةًۢ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ ﴾
“And when Saul set out with his forces, he said: "Behold, God will now try you by a river: he who shall drink of it will not belong to me, whereas he who shall refrain from tasting it - he, indeed, will belong to me; but forgiven shall be he who shall scoop up but a single handful." However, save for a few of them, they all drank [their fill] of it. And as soon as he and those who had kept faith with him had crossed the river, the others said: "No strength have we today [to stand up] against Goliath and his forces!" [Yet] those who knew with certainty that they were destined to meet God, replied: "How often has a small host overcome a great host by God's leave! For God is with those who are patient in adversity."”
حضرت موسیٰ ؑکے تقریباً 3 سو سال بعداور حضرت مسیح سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ایسا ہوا کہ فلستیوں نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا اور فلسطین کے اکثر علاقے ان سے چھین ليے۔ ایک عرصہ کے بعد بنی اسرائیل نے چاہاکہ وہ فلستیوں کے خلاف اقدام کریں اور اپنے علاقے ان سے واپس لیں۔ اس وقت ان کے درمیان ایک نبی تھے جن کا نام سموئیل تھا۔ وہ شام کے ایک قدیم شہر رامہ میں رہتے تھے اور بنی اسرائیل کے اجتماعی امور کے ذمہ دار تھے۔بنی اسرائیل کا ایک وفد ان سے ملا۔ اور کہا کہ آپ اب بوڑھے ہوچکے ہیں، اس ليے آپ ہم میں سے کسی کو ہمارے اوپر بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم اس کی رہنمائی میں جنگ کرسکیں۔ تورات کے الفاظ میں ’’اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری لڑائی کرے‘‘۔ حضرت سموئیل اگرچہ اپنی قوم کے کردار کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے تھے تاہم ان کے مطالبہ کی بنا پر انھوں نے کہا کہ اچھا میں تمھارے ليے ایک بادشاہ مقرر کردوں گا۔ چنانچہ انھوں نے قبیلہ بن یمین کے ایک بہادر نوجوان ساؤل (طالوت) کو ان کا بادشاہ (سردار) مقرر کردیا۔ ساؤل (طالوت) بنی اسرائیل کا لشکر لے کر دشمن کی طرف بڑھے۔ راستہ میں دریائے یردن پڑتا تھا۔ اس کو پار کرکے دشمن کے علاقہ میں پہنچنا تھا۔ چوں کہ طالوت کو بنی اسرائیل کی کمزوریوں کا علم تھا، انھوں نے ان کی جانچ کے لیے ایک سادہ طریقہ استعمال کیا۔ دریا کو پار کرتے ہوئے انھوںنے اعلان کیا کہ کوئی شخص پانی نہ پئے۔ البتہ ایک آدھ چلو لےلے تو کوئی حرج نہیں۔ بنی اسرائیل کی بڑی تعداد اس امتحان میں پوری نہ اتری۔ تاہم اس مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی دی۔ حضرت داؤد جو اس وقت صرف ایک نوجوان تھے، انھوں نے اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ فلستیوں کی فوج کا زبردست پہلوان جالوت ان کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اس کے بعد فلستیوں نے اسرائیل کے مقابلہ میں ہتھیار ڈال ديے۔ مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد کے اندر مشکلات پر جمے رهنےاور سردار کی اطاعت کرنے کا مادہ ہو۔ طالوت کا اپنے ساتھیوں کو پانی پینے سے منع کرنا اسی استعداد کی جانچ کی ایک سادہ سی تدبیر تھی۔ بائبل کے بیان کے مطابق ان میں سے صرف 600 آدمی ایسے نکلے جنھوں نے راستہ میں آنے والے دریا کا پانی نہیںپیا۔ جن لوگوں نے پانی پیا انھوں نے گویا اپنی اخلاقی کمزوریوں کو اور پختہ کرلیا۔ اس ليے دشمن کا بظاہر طاقت ور ہونا اب ان کو اور زیادہ محسوس ہونے لگا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پانی نہیں پيا تھا ان کے اس فعل سے ان کا صبر اور اطاعت کا مزاج اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔ ان کو وہ حقیقت اور زیادہ واضح صورت میں دکھائی دینے لگی جس کو بائبل کے بیان کے مطابق طالوت کے ایک ساتھی نے ان لفظوں میں بیان کیا تھا: اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند تلوار اور بھالے کے ذریعے سے نہیں بچاتا۔ اس ليے کہ جنگ تو خداوند کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کردے گا (1 سموئیل 17 :48 )۔ اقتدار جس کے پاس ہو وہ کچھ دنوں بعد گھمنڈ میں پڑ کر ظلم کرنے لگتا ہے۔ اس ليے اقتدار اگر کسی کے پاس مستقل طورپر جمع ہوجائے تو اس کے ظلم وفساد سے زمین بھر جائے۔ اس کی تلافی کا انتظام اللہ نے اس طرح کیا ہے کہ وہ صاحبان اقتدار کو بدلتا رہتا ہے۔ وہ بے اقتدار لوگوں میں سے ایک گروہ کو اٹھاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے صاحب اقتدار کو ہٹا کر اس کے منصب پر دوسرے کو بٹھا دیتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی برسرِ اقتدار جماعت کا ظلم بڑھ جائے تو یہ اس کے خلاف اٹھنے والے گروہ کے لیے خدائی مدد کا وقت ہوتاہے۔ اگر وہ صبر اور اطاعت کی شرط کو پورا کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدائی منصوبہ میں شامل کردے تو بظاہر کم ہونے کے باوجود وہ خداكی مدد سے زیادہ کے اوپر غالب آجائے گا — خدا کا خوف محض ایک منفی چیز نہیں، وہ ایک علم ہے جو آدمی کے ذہن کو اس طرح روشن کردیتاہے کہ وہ ہر چیز کو اس کے اصلی اور حقیقی روپ میں دیکھ سکے۔