slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 254 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَنفِقُوا۟ مِمَّا رَزَقْنَٰكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌۭ لَّا بَيْعٌۭ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌۭ وَلَا شَفَٰعَةٌۭ ۗ وَٱلْكَٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ﴾

“O YOU who have attained to faith! Spend [in Our way] out of what We have granted you as sustenance ere there come a Day when there will be no bargaining, and no friendship, and no intercession. And they who deny the truth -it is they who are evildoers!”

📝 التفسير:

خدا کو وہی پاتا ہے جو انفاق کی قیمت دے کر خدا کو اختیار کرے۔ اور کوئی آدمی جب خدا کو پالیتا ہے تو وہ ایک ایسی روشنی کو پالیتا ہے جس میں وہ بھٹکے بغیر چلتا رہے۔ یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کے برعکس، جو شخص انفاق کی قیمت ديے بغیر خدا کو اختیار کرے وہ ہمیشہ اندھیرے میں رہتاہے۔ جہاں شیطان اس کو بہکا کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جس کی آخری منزل جہنم کے سوا اور کچھ نہیں۔ انفاق سے مراد اپنے آپ کواور اپنے اثاثہ کو دین کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اپنی مصلحتوں کو قربان کرکے دین کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ آدمی جب کسی عقیدہ کو انفاق کی قیمت پر اختیار کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو اختیار کرنے میں سنجیدہ (sincere) ہے۔ یہ سنجیدہ ہونا بے حد اہم ہے۔ کسی معاملہ میں سنجیدہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو آدمی پر اس معاملہ کے بھیدوں کو کھولتاہے۔ سنجیدہ ہونے کے بعد ہی یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اور اس کے مقصد کے درمیان حقیقی تعلق قائم ہو، اور مقصد کے تمام پہلو اس پر واضح ہوں۔ اس کے برعکس معاملہ اس شخص کا ہے جو اپنی ہستی کی حوالگی کی قیمت پر دین کو اختیار نہ کرے۔ ایسا شخص کبھی دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوگا، اور اس بنا پر وہ آخرت کے معاملہ کو ایک آسان معاملہ فرض کرلے گا۔ وہ سمجھے گا کہ بزرگوں کی سفارش یا دین کے نام پر کچھ رسمی اور ظاہری کارروائیاں آخرت کي نجات کے لیے کافی ہیں۔ آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس راز کو نہ سمجھے گا کہ آخرت تو مالکِ کائنات کے عظمت و جلال کے ظہور کا دن ہے۔ ایسے ایک دن کے بارے میں محض سرسری چیزوں پر کامیابی کی امید کرلینا خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ کرناہے جو خدا کے یہاںآدمی کے جرم کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ وہ اس کی مقبولیت کا سبب بنے— خدا کی بات آدمی کے سامنے دلیل کی زبان میں آتی ہے اور وہ کچھ الفاظ بول کر اس کو رد کردیتا ہے۔ یہی شیطانی وسوسہ ہے۔ ہدایت اس کو ملتی ہے جو شیطان کے وسوسہ سے اپنے کو بچائے اور خدائی دلیل کو پہچان کر اس کے آگے جھک جائے۔