Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِى حَآجَّ إِبْرَٰهِۦمَ فِى رَبِّهِۦٓ أَنْ ءَاتَىٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّىَ ٱلَّذِى يُحْىِۦ وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا۠ أُحْىِۦ وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَأْتِى بِٱلشَّمْسِ مِنَ ٱلْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ ٱلْمَغْرِبِ فَبُهِتَ ٱلَّذِى كَفَرَ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴾
“ART THOU NOT aware of that [king] who argued with Abraham about his Sustainer, (simply] because God had granted him kingship? Lo! Abraham said: "My Sustainer is He who grants life and deals death." [The king] replied: "I [too] grant life and deal death!" Said Abraham: "Verily, God causes the sun to rise in the east; cause it, then, to rise in the west!" Thereupon he who was bent on denying the truth remained dumbfounded: for God does not guide people who [deliberately] do wrong.”
موجودہ زمانہ میں عوامی تائید سے حکومت کا استحقاق حاصل ہوتاہے۔ مگر جمہوریت کے دورسے پہلے اکثر بادشاہ لوگوں کو یہ یقین دلا کر ان کے اوپر حکومت کرتے تھے کہ وہ خدا کا انسانی پیکر ہیں۔ قدیم عراق کے بادشاہ نمرود کا معاملہ یہی تھا جو حضرت ابراہیم کا ہم عصر تھا۔ اس کی قوم سورج کو دیوتاؤں کا سردار مانتی تھی۔ اور اس کی پوجا کرتی تھی۔ نمرود نے کہا کہ وہ سورج دیوتا کا مظہر ہے، اس ليے وہ لوگوں کے اوپر حکومت کرنے کا خدائی حق رکھتاہے۔ حضرت ابراہیم نے اس وقت کے عراق میں جب توحید کی آواز بلند کی تو اس کا سیاست وحکومت سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ آپ لوگوں سے صرف یہ کہہ رہے تھے کہ تمھارا خالق اور مالک صرف ایک اللہ ہے۔ کوئی نہیں جو خدائی میں اس کا شریک ہو۔ اس ليے تم اسی کی عبادت کرو۔ اسی سے ڈرو اور اسی سے امیدیں قائم کرو۔ تاہم اس غیر سیاسی دعوت میں نمرود کو اپنی سیاست پرزد پڑتی ہوئی نظر آئی۔ ایسا عقیدہ جس میں سورج کو ایک بے زورمخلوق بتایا گیا ہو وہ گویا اس اعتقادی بنیاد ہی کو ڈھا رہا تھا جس کے اوپر نمرود نے اپنا سیاسی تخت بچھا رکھا تھا۔اس وجہ سے وہ آپ کا دشمن ہوگیا۔ حضرت ابراہیم نے نمرود سے جو گفتگو کی اس سے انبیاء کا طریقِ دعوت معلوم ہوتا ہے۔ نمرود کے سوال کے جواب میں آنجناب نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ نمرود نے مناظرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ موت اور زندگی پر تو میں بھی اختیار رکھتا ہوں۔ جس کو چاہوں مروادوں اور جس کو چاہوں زندہ رہنے دوں۔ آنجناب نمرود کا جواب دے سکتے تھے۔ مگر آپ نے گفتگو کو مناظرہ بنانا پسند نہ کیا۔ اس ليے آپ نے فوراً دوسری مثال پیش کردی جس کے جواب میں نمرود اس قسم کی بات نہ کہہ سکتا تھا جو اس نے پہلی مثال کے جواب میں کہی۔ حضرت ابراہیم کے لیے نمرود حریف نہ تھا۔ بلکہ مدعو کی حیثیت رکھتا تھا اس ليے ان کو یہ سمجھنے میںدیر نہ لگی کہ استدلال کا کون سا حکیمانہ انداز ان کو اختیار کرنا چاہيے۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس ليے اس کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ایک هی چیز کو آدمی دو مختلف معنوں میں لے سکے۔ مثلاً ایک شخص کے پاس دولت اور اقتدار آجائے تو وہ اس کو ایسے رخ سے دیکھ سکتا ہے کہ اس کی کامیابی اس کو اپنی صلاحیتوں کا نتیجہ نظر آئے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کو ایسے رخ سے دیکھے کہ اس کو محسوس ہو کہ جو کچھ اس کو ملا ہے وہ سراسر خدا کا انعام ہے۔ پہلی صورت ظلم کی صورت ہے، اور دوسری شکر کی صورت۔ جس شخص کے اندر ظالمانہ مزاج ہو اس کے لیے موجودہ دنیا صرف گمراہی کی خوراک ہوگی۔ اس کو ہر واقعہ میں گھمنڈ اور خود پسندی کی غذا ملے گی۔ اس کے برعکس، جس کے اندر شکر کا مزاج ہوگا، اس کے لیے ہر واقعہ میں ہدایت کا سامان ہوگا۔ خدا کی دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے لیے رزق ایمانی کا دستر خوان بن جائے گی۔