Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَوْ كَٱلَّذِى مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍۢ وَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْىِۦ هَٰذِهِ ٱللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ ٱللَّهُ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ ثُمَّ بَعَثَهُۥ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍۢ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِا۟ئَةَ عَامٍۢ فَٱنظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ ءَايَةًۭ لِّلنَّاسِ ۖ وَٱنظُرْ إِلَى ٱلْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًۭا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ ﴾
“Or [art thou, O man, of the same mind] as he who passed by a town deserted by its people, with its roofs caved in, [and] said, "How could God bring all this back to life after its death?" Thereupon God caused him to be dead for a hundred years; where after He brought him back to life [and] said: "How long hast thou remained thus?" He answered: "I have remained thus a day, or part of a day." Said [God]: "Nay, but thou hast remained thus for a hundred years! But look at thy food and thy drink-untouched is it by the passing of years - and look at thine ass! And [We did all this so that We might make thee a symbol unto men. And look at the bones [of animals and men] - how We put them together and then clothe them with flesh!" And when [all this] became clear to him, he said: "I know [now] that God has the power to will anything!"”
یہاں موت کے بعد دوبارہ زندہ کيے جانے کے جن دو تجربات کا ذکر ہے ان کا تعلق انبیاء سے ہے۔ پہلا تجربہ غالباً حضرت عزیر کے ساتھ گزرا جن کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ اور دوسرا تجربہ حضرت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ جن کا زمانہ 1985-2160 ق م کے درمیان ہے۔ انبیاء خدا کی طرف سے اس ليے مقرر ہوتے ہیںکہ لوگوں کو غیبی حقائق سے باخبر کریں۔ اس ليے ان کو وہ غیبی چیزیں بے پردہ کرکے دکھا دی جاتی ہیں جن پر دوسروں کے لیے اسباب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ انبیاء کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ اس ليے ہوتاہے تاکہ وہ ان چیزوں کو ذاتی مشاہد بن کر ان کی بابت لوگوں کو با خبر کرسکیں۔ وہ لوگوں کو جن غیبی حقیقتوں کی خبر دیں ان کے متعلق کہہ سکیں کہ ہم ایک دیکھی ہوئی چیز سے تم کو خبردار کررہے ہیں، نہ کہ محض سنی ہوئی چیز سے۔ انبیا ء کو چالیس سال کی عمر میں نبوت دی جاتی ہے۔ نبوت سے پہلے ان کی پوری زندگی لوگوں کے سامنے اس طرح گزرتی ہے کہ ان سے کسی شخص کو جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوتا۔ تقریباً نصف صدی تک ماحول کے اندر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دینے کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں کے سامنے ان غیبی حقیقتوں کے اعلان کے لیے کھڑا کرے جن کو آزمائش کی مصلحت کی بنا پر لوگوں سے چھپا دیاگیا ہے۔ ماحول کے یہ سب سے زیادہ سچے لوگ ایک طرف اپنے مشاہدہ سے لوگوں کو باخبر کرتے ہیں اور دوسری طرف عقل اور فطرت کے شواہد سے اس کو مدلل کرتے ہیں۔مزید یہ کہ انبیاء کو ہمیشہ شدید ترین حالات سے سابقہ پیش آتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے قول سے پھرتے نہیںوہ انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ اپنی بات پر جمے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ فرضی طورپر انھوںنے کوئی بات نہیں گھڑ لی ہے۔ کیوں کہ گھڑی ہوئی بات کو پیش کرنے والا کبھی اتنے سخت حالات میں اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اورنہ اس کی بات خارجی کائنات سے اتنا زیادہ مطابق ہوسکتی ہے کہ وہ سراپا اس کی تصدیق بن جائے۔