Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةًۭ مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍۢ مِّنْهُنَّ جُزْءًۭا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًۭا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ﴾
“And, lo, Abraham said: "O my Sustainer! Show me how Thou givest life unto the dead!" Said He: "Hast thou, then, no faith?" (Abraham) answered: "Yea, but [let me see it] so that my heart may be set fully at rest." Said He: "Take, then, four birds and teach them to obey thee; then place them separately on every hill [around thee]; then summon them: they will come flying to thee. And know that God is almighty, wise."”
یہاں موت کے بعد دوبارہ زندہ کيے جانے کے جن دو تجربات کا ذکر ہے ان کا تعلق انبیاء سے ہے۔ پہلا تجربہ غالباً حضرت عزیر کے ساتھ گزرا جن کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ اور دوسرا تجربہ حضرت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ جن کا زمانہ 1985-2160 ق م کے درمیان ہے۔ انبیاء خدا کی طرف سے اس ليے مقرر ہوتے ہیںکہ لوگوں کو غیبی حقائق سے باخبر کریں۔ اس ليے ان کو وہ غیبی چیزیں بے پردہ کرکے دکھا دی جاتی ہیں جن پر دوسروں کے لیے اسباب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ انبیاء کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ اس ليے ہوتاہے تاکہ وہ ان چیزوں کو ذاتی مشاہد بن کر ان کی بابت لوگوں کو با خبر کرسکیں۔ وہ لوگوں کو جن غیبی حقیقتوں کی خبر دیں ان کے متعلق کہہ سکیں کہ ہم ایک دیکھی ہوئی چیز سے تم کو خبردار کررہے ہیں، نہ کہ محض سنی ہوئی چیز سے۔ انبیا ء کو چالیس سال کی عمر میں نبوت دی جاتی ہے۔ نبوت سے پہلے ان کی پوری زندگی لوگوں کے سامنے اس طرح گزرتی ہے کہ ان سے کسی شخص کو جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوتا۔ تقریباً نصف صدی تک ماحول کے اندر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دینے کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں کے سامنے ان غیبی حقیقتوں کے اعلان کے لیے کھڑا کرے جن کو آزمائش کی مصلحت کی بنا پر لوگوں سے چھپا دیاگیا ہے۔ ماحول کے یہ سب سے زیادہ سچے لوگ ایک طرف اپنے مشاہدہ سے لوگوں کو باخبر کرتے ہیں اور دوسری طرف عقل اور فطرت کے شواہد سے اس کو مدلل کرتے ہیں۔مزید یہ کہ انبیاء کو ہمیشہ شدید ترین حالات سے سابقہ پیش آتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے قول سے پھرتے نہیںوہ انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ اپنی بات پر جمے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ فرضی طورپر انھوںنے کوئی بات نہیں گھڑ لی ہے۔ کیوں کہ گھڑی ہوئی بات کو پیش کرنے والا کبھی اتنے سخت حالات میں اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اورنہ اس کی بات خارجی کائنات سے اتنا زیادہ مطابق ہوسکتی ہے کہ وہ سراپا اس کی تصدیق بن جائے۔