slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 264 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُبْطِلُوا۟ صَدَقَٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُۥ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۖ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌۭ فَأَصَابَهُۥ وَابِلٌۭ فَتَرَكَهُۥ صَلْدًۭا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَىْءٍۢ مِّمَّا كَسَبُوا۟ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴾

“O you who have attained to faith! Do not deprive your charitable deeds of all worth by stressing your own benevolence and hurting [the feelings of the needy], as does he who spends his wealth only to be seen and praised by men, and believes not in God and the Last Day: for his parable is that of a smooth rock with [a little] earth upon it - and then a rainstorm smites it and leaves it hard and bare. Such as these shall have no gain whatever from all their [good] works: for God does not guide people who refuse to acknowledge the truth.”

📝 التفسير:

ہر عمل جو آدمی کرتا ہے وہ گویا ایک بیج ہے جو آدمی ’’زمین‘‘ میں ڈالتا ہے۔ اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ لوگ اسے دیکھیں تو اس نے اپنا بیج دنیا کی زمین میں ڈالا تاکہ یہاں کی زندگی میں اپنے کيے کا پھل پاسکے۔ اور اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ اللہ اس کو ’’دیکھے‘‘ تو اس نے آخرت کی زمین میں اپنا بیج ڈالا جو اگلی دنیا میںاپنے پھول اور پھل کی بہاریں دکھائے۔ دنیا میں ایک دانہ سے ہزار دانے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی حال آخرت کے کھیت میں دانہ ڈالنے کا بھی ہے۔ دنیا کے فائدہ یا دنیا کی شہرت وعزت کے لیے خرچ کرنے والا اسی دنیا میں اپنا معاوضہ لینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ مگر جو شخص اللہ کے لیے خرچ کرے اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی پر احسان نہیں جتاتا، اس نے جب اللہ کے لیے خرچ کیا ہے تو انسان پر اس کا کیا احسان۔ اس کی رقم خرچ ہو کر جن لوگوں تک پہنچتی ہے ان کی طرف سے اس کو اچھا جواب نہ ملے تو وہ ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کو تو اچھا جواب اللہ سے لینا ہے، پھر انسانوں سے ملنےیا نہ ملنے کا اسے کیا غم۔ اگر کسی سائل کو وہ نہیں دے سکتاتو وہ اس سے برُا کلمہ نہیں کہتا۔ بلکہ نرمی کے ساتھ معذرت کردیتاہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے خدا کے سامنے بول رہا ہے۔ خدا کا خوف اس کو انسان کے سامنے اپني زبان كو كنٹرول كرنے پر مجبور کردیتاہے۔ پـتھر کی چٹان کے اوپر کچھ مٹی جم جائے تو بظاہر وہ مٹی دکھائی دے گی۔ مگر بارش کا جھونکا آتے ہی مٹی کی اوپری تہ بہہ جائے گی اور اندر سے خالی پـتھر نکل آئے گا۔ ایسا ہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جو بس اوپری دین داری ليے ہوئے ہو۔ دین اس کے اندر تک داخل نہ ہوا ہو۔ ایسے آدمی سے اگر کوئی سائل بے ڈھنگے انداز سے سوال کردے یا کسی کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے آجائے جو اس کی اَنا پر ضرب لگانے والی ہو تو وہ بپھر کر انصاف کی حدوں کو توڑ دیتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے جو اس کی اوپری ’’مٹی‘‘ کو بہا لے جاتا ہے اور پھر اس کے اندر کا انسان سامنے آجاتا ہے جس کو وہ دین کے ظاہری لبادہ کے پیچھے چھپائے ہوئے تھا— اللہ کے لیے عمل کرنا گویا دیکھے پر اَن دیکھے کو ترجیح دینا ہے جو اس بلند نظری کا ثبوت دے وہی وہ شخص ہے جس پر خدا کی چھپی ہوئی معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔