slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 265 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَمَثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمُ ٱبْتِغَآءَ مَرْضَاتِ ٱللَّهِ وَتَثْبِيتًۭا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌۭ فَـَٔاتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌۭ فَطَلٌّۭ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴾

“And the parable of those who spend their possessions out of a longing to please God, and out of their own inner certainty, is that of a garden on high, fertile ground: a rainstorm smites it, and thereupon it brings forth its fruit twofold; and if no rainstorm smites it, soft rain [falls upon it]. And God sees all that you do.”

📝 التفسير:

آدمی جب کسی چیز کے لیے عمل کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ اس کے حق میں اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرتاہے۔ اگر وہ اپنی خواہش کے تحت عمل کرے تو اس نے اپنے دل کو اپنی خواہش پر جمایا۔ اس کے برعکس آدمی اگر وہاں عمل کرے جہاں خدا چاہتا ہے کہ عمل کیا جائے تو اس نے اپنے دل کو خدا پر جمایا۔ دونوں راہوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کبھی آسان حالات میں عمل کرنا ہوتا ہے اور کبھی مشکل حالات میں۔ تاہم مواقع جتنے شدید ہوں، آدمی کوجتنا زیادہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا عمل کرنا پڑے اتنا ہی زیادہ وہ اپنے پیش نظر مقصد کے حق میں اپنے ارادہ کو مستحکم کرے گا۔ عام حالات میں اللہ کی راہ میں اپنے اثاثہ کو خرچ کرنا بھی باعثِ ثواب ہے۔ مگر جب مخالف اسباب کی وجہ سے خصوصی قوت ارادی کو استعمال کرکے آدمی اللہ کی راہ میں اپنا اثاثہ دے تو اس کا ثواب اللہ کے یہاں بہت زیادہ ہے — جس مدمیں خرچ کرنا دنیوی اعتبار سے بے فائدہ ہو اس میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا، جس کو دینے کا دل نہ چاہے اس کو اللہ کے لیے دینا، جس سے خوش معاملگی پر طبیعت آمادہ نہ ہو اس سے اللہ کی خاطر خوش معاملگی کرنا، وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو سب سے زیادہ خدا پرستی پر جماتی ہیں اور اس کو خدا کی خصوصی رحمت و نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔ آدمی جوانی کی عمر میں باغ لگاتا ہے تاکہ بڑھاپے کی عمر میں اس کا پھل کھائے۔ پھر وہ شخص کیسا بدنصیب ہے جس کا ہرا بھرا باغ اس کی آخر عمر میںعین اس وقت برباد ہوجائے جب کہ وہ سب سے زیادہ اس کا محتاج ہو اور اس کے لیے وہ وقت بھی ختم ہوچکا ہو جب کہ وہ دوبارہ نیا باغ لگائے اور اس کو از سر نو تیار کرے۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جنھوںنے دین کا کام دنیوی عزت ومنفعت کے لیے کیا۔ وہ بظاہر نیکی اور بھلائی کا کام کرتے رہے۔ مگر ان کا کام صرف شکلا ً ہی عام دنیاداروں سے مختلف تھا۔ باعتبار حقیقت دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ عام دنیادار جس دنیوی ترقی اور ناموری کے لیے دنیوی نقشوں میں دوڑ دھوپ کررہے تھے، اسی دنیوی ترقی اور ناموری کے لیے انھوںنے دینی نقشوں میں دوڑ دھوپ جاری کردی۔ جو شہرت وعزت دوسرے لوگ دنیا کی عمارت میں اپنا اثاثہ خرچ کرکے حاصل کررہے تھے، اسی شہرت وعزت کو انھوں نے دین کی عمارت میں اپنا اثاثہ خرچ کرکے حاصل کرنا چاہا۔ ایسے لوگ جب مرنے کے بعد آخرت کے عالم میں پہنچیں گے تو وہاں ان کے لیے کچھ نہ ہوگا۔ انھوںنے جو کچھ کیا اِسی دنیا کے لیے کیا۔ پھر وہ اپنے کيے کا پھل اگلی دنیا میں کس طرح پاسکتے ہیں— خدا کی نشانیاں ہمیشہ ظاہر ہوتی ہیں۔ مگر وہ خاموش زبان میں ہوتی ہیں۔ ان سے وہی سبق لے سکتا ہے جو اپنے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہو۔