slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 269 من سورة سُورَةُ البَقَرَةِ

Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ يُؤْتِى ٱلْحِكْمَةَ مَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ ٱلْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِىَ خَيْرًۭا كَثِيرًۭا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ ﴾

“granting wisdom unto whom He wills: and whoever is granted wisdom has indeed been granted wealth abundant. But none bears this in mind save those who are endowed with insight.”

📝 التفسير:

آدمی دنیا میں جو کچھ کماتا ہے اس کو خرچ کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو شیطان کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو اللہ کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ شیطان یہ کرتا ہے کہ آدمی کے ذاتی تقاضوں کی اہمیت اس کے دل میں بٹھاتا ہے۔ وہ اس کو سکھاتا ہے کہ تم نے جو کچھ کمایا ہے اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اس کو اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگاؤ۔ پھر جب شیطان دیکھتا ہے کہ آدمی کے پاس اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو وہ اس کے اندر ایک اور جذبہ بھڑکا دیتاہے۔ یہ نمود و نمائش کا جذبہ ہے۔ اب وہ اپنی دولت کو بے دریغ نمائشی کاموں میں بہانے لگتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس نے اپنی دولت کو بہترین مصرف میں لگایا۔ آدمی کو چاہيے کہ اپنے مال کو اپنی ذاتی چیز نہ سمجھے بلکہ اللہ کی چیز سمجھے۔ وہ اپنی کمائی میں سے اپنی حقیقی ضرورت کے بقدر لے لے اور اس کے بعد جو کچھ ہے اس کو بلند تر مقاصد میں لگائے۔ وہ خدا کے کمزور بندوں کو دے اور خدا کے دین کی ضرورتوں میں خرچ کرے۔ آدمی جب اللہ کے کمزور بندوں پر اپنا مال خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے اس بات کا امیدوار بن رہا ہوتا ہے کہ آخرت میں جب وہ خالی ہاتھ خداکے سامنے حاضر ہو تو اس کا خدا اس کو اپنی رحمتوں سے محروم نہ کرے۔ اسی طرح جب وہ دین کی ضرورتوں میں اپنا مال دیتاہے تو وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں شریک کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے مال میں شامل کرتاہے تاکہ اس کی حقیر پونجی خدا کے بڑے خزانہ میں مل کر زیادہ ہوجائے۔ جو شخص اپنے مال کو اللہ کے بتائے هوئے طریقے کے مطابق خرچ کرتا ہے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کو حکمت ودانائی میں سے حصہ ملا ہے۔ سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ آدمی مال کی محبت میں مبتلا ہو اور اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے رک جائے اور سب سے بڑی دانائی یہ ہے کہ اقتصادی مفادات آدمی کے لیے اللہ کی راہ میں بڑھنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا میں اتنا ملا دے کہ خدا کو اپنا اور اپنے کو خدا کا سمجھنے لگے۔ جو شخص ذاتی مصلحتوں کے خول میں جیتا ہے اس کے اندر وہ نگاہ پیدا نہیں ہوسکتی جو بلند تر حقیقتوں کو دیکھے اور اعلیٰ کیفیات کا تجربہ کرے۔ اس کے برعکس، جو شخص ذاتی مصلحتوں کو نظر انداز کرکے خدا کی طرف بڑھتا ہے وہ اپنے آپ کو محدودیتوں سے اوپر اٹھاتا ہے، وہ اپنے شعور کو اس خدا کے ہم سطح کرلیتاہے جو غنی وحمید اور وسیع وعلیم ہے۔ وہ چیزوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ ان حد بندیوں کے پار ہوجاتا ہے جو آدمی کے لیے کسی چیز کو اس کے اصلی روپ میں دیکھنے میں رکاوٹ بنتی ہیں — کوئی بات خواہ کتنی ہی سچی ہو مگر اس کی سچائی کسی آدمی پر اسی وقت کھلتی ہے جب کہ وہ اس کو کھلے ذہن سے دیکھ سکے۔