Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَآ أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍۢ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُهُۥ ۗ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴾
“For, whatever you may spend on others, or whatever you may vow [to spend], verily, God knows it; and those who do wrong [by withholding charity] shall have none to succour them.”
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی سب سے بڑی مد یہ ہے کہ ان دینی خادموں کی مالی مدد کی جائے جو دین کی جدوجہد میں اپنے کو ہمہ تن لگا دینے کی وجہ سے بے معاش ہوگئے ہوں۔ایک کامیاب تاجر کے پاس کسی دوسرے کام کے لیے وقت نہیں رہتا۔ ٹھیک یہی معاملہ خدمت دین کا ہے۔ جو شخص یک سوئی کے ساتھ اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگائے اس کے پاس معاشی جدوجہد کے لیے وقت نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ ہر کام کی اپنی ایک فطرت ہے اور اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ آدمی کا ذہن ایک خاص ڈھنگ پر بناتاہے جو شخص تجارت میں لگتاہے اس کے اندر دھیرے دھیرے تجارتی مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ تجارت کی راہ کی باریکیاں فوراً اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جب کہ وہی آدمی دین کے راستہ کی باتوں کو گہرائی کے ساتھ پکڑ نہیں پاتا۔ یہی معاملہ برعکس صورت میں دين كي خدمت كرنے والے کا ہوتا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو۔ کیوں کہ کسی معاشرہ میں دونوں قسم کے کاموں کا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس معاشی وسائل جمع ہوگئے ہیں اس میں وہ ان لوگوں کا حصہ بھي لگائیں جو دینی مصروفیت کی وجہ سے اپنی معاشیات فراہم نہ کرسکے۔ یہ گویا ایک طرح کی خاموش تقسیم کار ہے جو طرفین کے درمیان خالص رضائے الٰہی کے لیے وقوع میںآتی ہے۔ خادم دین نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے یکسو کیا تھا، اس ليے وہ انسان سے نہیں مانگتا اور نہ اس سے پانے کا امیدوار رہتاهے۔ دوسری طرف صاحب معاش یہ سوچتاہے کہ میرے پاس معاشی وسائل اس قیمت پر آئے ہیں کہ میں دین کی راہ میں وہ خدمت نہ کرسکا جو مجھ کو کرنا چاہيے تھا۔ اس ليے اس کی تلافی كي صورت يہ ہے کہ میں اپنے مال میںاپنے ان بھائیوں کا حصہ لگاؤں جو گویا میری کمی کی تلافی خداکے یہاں کررہے ہیں۔ جب دین کی جدوجہد اس مرحلہ میں ہو کہ دین کے نام پر معاشی عہدے نہ ملتے ہوں، جب دین کی راہ میں لگنے والا آدمی بے روزگار ہوجائے، اس وقت دین کے خادموں کو اپنا مال دینا بظاہر ماحول کے ایک غیراہم طبقہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ ایسے افراد پر خرچ کرنا مجلسوں میں قابل تذکرہ نہیںہوتا۔ وہ آدمی کی حیثیت اور ناموری میں اضافہ نہیں کرتا۔ مگر یہی وہ خرچ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتاہے۔