Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾
“O you who have attained to faith! Remain conscious of God. and give up all outstanding gains from usury, if you are [truly] believers;”
معاشرہ کی اصلاح کا بنیادی اصول یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی فرد نہ کسی دوسرے کے اوپر زیادتی کرے اور نہ دوسرا کوئی اس کے اوپر زیادتی کرے۔نہ کوئی کسی کے اوپر ظالم بنے اور نہ کوئی کسی کو مظلوم بنائے۔ سود خواری ایک کھلا ہوا معاشی ظلم ہے۔ اس ليے اسلام نے اس کو حرام ٹھہرایا۔ حتی کہ اسلامی اقتدار کے تحت سودی کاروبار کو فوجداری جرم قرار دیا۔ تاہم ایک سود خوار کو جس طرح دوسرے کے ساتھ ظالمانہ کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے اسی طرح کسی دوسرے کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ سود خوار کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائے۔ کسی کا مجرم ہونا اس کو اس کے دیگر حقوق سے محروم نہیںکرتا۔ سود خوار کے خلاف جب کارروائی کی جائے گی تو صرف اس کے سودی اضافہ کو ساقط کیا جائے گا۔ اپنی اصل رقم کو واپس لینے کا وہ پھر بھی حق دار ہوگا۔ تاہم عمومی قانون کے ساتھ اسلام انسانی کمزوریوں کی بھی آخری حد تک رعایت کرتا ہے۔ اس ليے حکم دیاگیا کہ کوئی قرض دار اگر وقت پر تنگدست ہے تو اس کو اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک وہ اپنے ذمہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی کے ساتھ یہ تلقین بھی کی گئی کہ کوئی شخص قرض کی رقم ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو اس کے ذمہ کی رقم کو سرے سے معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرو۔ معاف کرنے والا خدا کے یہاں اجر کا مستحق بنتا ہے اور دنیا میں اس کا یہ فائدہ ہے کہ معاشرہ کے اندر باہمی رعایت اور ہمدردی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو بالآخر سب کے لیے مفید ہے۔ تاہم صرف قانون کا نفاذ معاشرہ کی صلاح وفلا ح کا ضامن نہیں۔حقیقی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں تقویٰ کی فضا موجود ہو۔ اس ليے قانونی حکم بتاتے ہوئے ایمان، تقویٰ اور آخرت کا اہتمام کے ساتھ ذکر کیاگیا۔ جس طرح ایک سیکولر نظام اسی وقت کامیابی کے ساتھ چلتاہے جب کہ شہریوں کے اندر اس کے مطابق قومی کردا ر موجود ہو۔ اسی طرح اسلامی نظام اسی وقت صحیح طورپر وقوع میںآتاہے جب کہ افراد کے قابل لحاظ حصہ میں تقویٰ کی روح پائی جاتی ہو۔ قومی کردار یا تقویٰ دراصل مطلوبہ نظام کے حق میں افراد کی آمادگی کانام ہے۔ اور افراد کے اندر جب تک ایک درجہ کی آمادگی نہ ہو، محض قانون کے زور پر اس کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ مزید یہ کہ اسلام کی رو سے اصلاح معاشرہ بجائے خود مطلوب چیز نہیں ہے۔ اسلام میں اصل مطلوب فرد کی اصلاح ہے۔ معاشرہ کی اصلاح صرف اس کا ایک ثانوی نتیجہ ہے۔ قرآن جس ایمان، تقویٰ اور فکر آخرت کی طرف بلاتا ہے اس کا تحقق فرد کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ کسی اجتماعی ہیئت کے اندر۔ اس ليے قرآنی دعوت کا اصل مخاطب فرد ہے، اور معاشرہ کی اصلاح افراد کی اصلاح کا اجتماعی ظہور۔