Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍۢ مِّن رُّسُلِهِۦ ۚ وَقَالُوا۟ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ ﴾
“THE APOSTLE, and the believers with him, believe in what has been bestowed upon him from on high by his Sustainer: they all believe in God, and His angels, and His revelations, and His apostles, making no distinction between any of His apostles; and they say: We have heard, and we pay heed. Grant us Thy forgiveness, O our Sustainer, for with Thee is all journeys' end!”
کائنات کی ہر چیز اللہ کے زیر حکم ہے۔ ذرہ سے لے کر ستاروں تک سب خدا کے مقررہ نقشہ میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ اسی راستہ پر چل رہے ہیں جس پر چلنے کے لیے خدا نے ان کو پابند کردیا ہے۔ مگر انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنے کو خود مختار حالت میں پاتا ہے۔ بظاہر وہ آزاد ہے کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ مگر انسان کی آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ امتحان کے لیے ہے۔ انسان کو بھی کائنات کے بقیہ اجزاء کی طرح خدا کی پابندی کرنی ہے۔ جس پابند زندگی کو بقیہ کائنات نے بزور اختیار کیا ہے وہی پابند زندگی انسان کو اپنے ارادہ سے اختیار کرنا ہے۔ انسان کو ظاہری صورت حال سے دھوکا کھا کر یہ نہ سمجھنا چاہيے کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر وقت مالک کائنات کی نظر میں ہے، وہ اس کی ہر چھوٹی بڑی بات کی نگرانی کررہاہے خواہ وہ اس کے اندر ہو یا اس کے باہر۔ وہ کون سا انسان ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ وہ ایمان اور اطاعت والا انسان ہے۔ ایمان سے مراد آدمی کی شعوری حوالگی ہے اور اطاعت سے مراد اس کی عملی حوالگی۔ شعور کے اعتبار سے یہ مطلوب ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے اپنے اندر اتار لے۔ وہ اس حقیقت کو پاگیا ہو کہ کائنات کا نظام کوئی بے روح مشینی نظام نہیں ہے بلکہ ایک زندہ نظام ہے جس کو خدا اپنے فرماں بردار کارندوں کے ذریعہ چلا رہا ہے۔ اس نے خدا کے بندوں میں سے ان بندوں کو پہچان لیا ہو جن کو خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چنا۔ خدا نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جو کتاب اتاری ہے اس کو وہ حقیقی معنوں میں اپنے فکر وخیال کا جزء بنا چکا ہو۔ رسالت اور پیغمبری اس کو پوری انسانی تاریخ میں ایک مسلسل واقعہ کی صورت میں نظر آنے لگے۔ ایمانیات کو اس طرح اپنے دل ودماغ میں بٹھا لینے کے بعد وہ اپنی زندگی ہمہ تن اس کے نقشہ پر ڈھال دے۔ پھر یہ ایمان واطاعت اس کے لیے کوئی رسمی اور ظاہری معاملہ نہ ہو بلکہ وہ اس کی روح کو اس طرح گھلا دے کہ وہ اللہ کو پکارنے لگے۔ اس کا وجود خدا کی یاد میں ڈھل جائے۔ اس کی زندگی تمام تر خدا کے اوپر نربھر ہوجائے۔