Al-Baqara • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنۢ بَعْدِهِۦ بِٱلرُّسُلِ ۖ وَءَاتَيْنَا عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱلْبَيِّنَٰتِ وَأَيَّدْنَٰهُ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُولٌۢ بِمَا لَا تَهْوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًۭا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًۭا تَقْتُلُونَ ﴾
“For, indeed, We vouchsafed unto Moses the divine writ and caused apostle after apostle to follow him; and We vouchsafed unto Jesus, the son of Mary, all evidence of the truth, and strengthened him with holy inspiration. [Yet] is it not so that every time an apostle came unto you with something that was not to your liking, you gloried in your arrogance, and to some of them you gave the lie, while others you would slay?”
تورات اللہ کی کتاب تھی جو بنی اسرائیل پر اتری۔ مگر دھیرے دھیرے تورات کی حیثیت ان کے یہاں قومی تبرک کی ہوگئی۔ قومی عظمت اور نجات کی علامت کے طورپراب بھی وہ اس کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ مگر رہنما کتاب کے مقام سے اس کو انھوں نے ہٹا دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے بعد بار بار ان کے درمیان انبیا اٹھے، مثلاً یوشع نبی، داؤد نبی، زکریا نبی، یحیٰ نبی، وغیرہ۔ ان کے آخری نبی حضرت عیسیٰؑ تھے۔ یہ تمام انبیا ان کو یہ نصیحت دینے کے لیے آئے کہ خدائی تعلیمات کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرو۔ مگر تورات کے تقدس پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ آواز ان کے لیے تمام آوازوں سے زیادہ ناقابلِ برداشت ثابت ہوئی۔ وہ خدا کے نبیوں کو نبی ماننے سے انکار کرتے، حتی کہ ان کو قتل کرڈالتے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تورات کے نام پر وہ جس زندگی کو اختیار کيے ہوئے تھے وہ حقیقۃً نفسانیت اور دنیا پرستی کی ایک زندگی تھی، جس کے اوپر انھوں نے خدا کی کتاب کا لیبل لگالیا تھا۔ خدا کے نبی جب بے آمیز حق کی دعوت پیش کرتے تو ان کو نظر آتا کہ یہ دعوت ان کی مذہبی حیثیت کی نفی کررہی ہے۔ اب ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھتیں ۔ وہ نبیوں کے اعتراف کے بجائے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتے۔ یہی معاملہ قدیم عرب کے یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔ وہ اپنی کتابوں میں آخری رسول کی پیشین گوئی کو دیکھ کر کہتے کہ جب وہ نبی آئے گا تو ہم اس کے ساتھ مل کر کافروں اور مشرکوں کو زیر کریں گے۔مگر ان کی یہ بات محض ایک جھوٹی تقریر تھی جو اپنے کو مذہب کا پاسبان ظاہر کرنے کے لیے وہ کرتے تھے۔ چنانچہ ’’وہ نبی‘‘ آیا تو ان کی حقیقت کھل گئی۔ ان کے جاہلی تعصبات اپنے گروہ سے باہر کے ایک نبی کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن گئے۔ قرآن میں آپ کی صداقت کے بارے میں جو واضح دلائل ديے جارہے تھے، ان کے جواب سے وہ عاجز تھے۔ اس ليے وہ کہنے لگے کہ تمھاری ظاہر فریب باتوں سے متاثر ہو کر ہم اپنے اسلاف کا دین نہیں چھوڑ سکتے۔