Taa-Haa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قَالَ ءَامَنتُمْ لَهُۥ قَبْلَ أَنْ ءَاذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُۥ لَكَبِيرُكُمُ ٱلَّذِى عَلَّمَكُمُ ٱلسِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَٰفٍۢ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِى جُذُوعِ ٱلنَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَآ أَشَدُّ عَذَابًۭا وَأَبْقَىٰ ﴾
“Said [Pharaoh]: "Have you come to believe in him ere I have given you permission? Verily, he must be your master who has taught you magic! But I shall most certainly cut off your hands and feet in great numbers, because of [your] perverseness, and I shall most certainly crucify you in great numbers on trunks of palm-trees: and [I shall do this] so that you might come to know for certain as to which of us [two] can inflict a more severe chastisement, and [which] is the more abiding!"”
جادوگروں کے سامنے ایک طرف حضرت موسیٰ کی دلیل تھی، اور دوسری طرف فرعون کی جابرانہ شخصیت۔ یہ دلیل اور شخصیت کا مقابلہ تھا۔ جادوگروں نے شخصیت پر دلیل کو ترجیح دی۔ اگر چہ وہ جانتے تھے کہ اس ترجیح کی قیمت انھیں انتہائی مہنگی صورت میں دینی پڑے گی۔ جادوگروں کا ایمان کوئی نسلی یا رسمی ایمان نہ تھا۔ ان کا ایمان ان کے لیے دریافت کے ہم معنی تھا۔ اور جو ایمان کسی آدمی کو دریافت کے طورپر حاصل ہو وہ اتنا طاقت ور ہوتاہے کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز اس کو ہیچ نظر آنے لگتی ہے، خواہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہو یا کوئی بڑی دنیوی مصلحت۔