Taa-Haa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قَالُوا۟ لَن نُّؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَآءَنَا مِنَ ٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلَّذِى فَطَرَنَا ۖ فَٱقْضِ مَآ أَنتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِى هَٰذِهِ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَآ ﴾
“They answered: "Never shall we prefer thee to all the evidence of the truth that has come unto us, nor to Him who has brought us into being! Decree, then, whatever thou art going to decree: thou canst decree only [something that pertains to] this worldly life!”
جادوگروں کے سامنے ایک طرف حضرت موسیٰ کی دلیل تھی، اور دوسری طرف فرعون کی جابرانہ شخصیت۔ یہ دلیل اور شخصیت کا مقابلہ تھا۔ جادوگروں نے شخصیت پر دلیل کو ترجیح دی۔ اگر چہ وہ جانتے تھے کہ اس ترجیح کی قیمت انھیں انتہائی مہنگی صورت میں دینی پڑے گی۔ جادوگروں کا ایمان کوئی نسلی یا رسمی ایمان نہ تھا۔ ان کا ایمان ان کے لیے دریافت کے ہم معنی تھا۔ اور جو ایمان کسی آدمی کو دریافت کے طورپر حاصل ہو وہ اتنا طاقت ور ہوتاہے کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز اس کو ہیچ نظر آنے لگتی ہے، خواہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہو یا کوئی بڑی دنیوی مصلحت۔