Taa-Haa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّآ ءَامَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَٰيَٰنَا وَمَآ أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ ٱلسِّحْرِ ۗ وَٱللَّهُ خَيْرٌۭ وَأَبْقَىٰٓ ﴾
“As for us, behold, we have come to believe in our Sustainer, [hoping] that He may forgive us our faults and all that magic unto which thou hast forced us: for God is the best [to look forward to], and the One who is truly abiding."”
جادوگروں کے سامنے ایک طرف حضرت موسیٰ کی دلیل تھی، اور دوسری طرف فرعون کی جابرانہ شخصیت۔ یہ دلیل اور شخصیت کا مقابلہ تھا۔ جادوگروں نے شخصیت پر دلیل کو ترجیح دی۔ اگر چہ وہ جانتے تھے کہ اس ترجیح کی قیمت انھیں انتہائی مہنگی صورت میں دینی پڑے گی۔ جادوگروں کا ایمان کوئی نسلی یا رسمی ایمان نہ تھا۔ ان کا ایمان ان کے لیے دریافت کے ہم معنی تھا۔ اور جو ایمان کسی آدمی کو دریافت کے طورپر حاصل ہو وہ اتنا طاقت ور ہوتاہے کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز اس کو ہیچ نظر آنے لگتی ہے، خواہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہو یا کوئی بڑی دنیوی مصلحت۔