Taa-Haa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَرَجَعَ مُوسَىٰٓ إِلَىٰ قَوْمِهِۦ غَضْبَٰنَ أَسِفًۭا ۚ قَالَ يَٰقَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ ٱلْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌۭ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِى ﴾
“Thereupon Moses returned to his people full of wrath and sorrow, [and] exclaimed: "O my people! Did not your Sustainer hold out [many] a goodly promise to you? bid, then, [the fulfilment of] this promise seem to you too long in coming? Or are you, perchance, determined to see your Sustainer's condemnation fall upon you, and so you broke your promise to me?"”
بنی اسرائیل کی عورتیں غالباً قدیم رواج کے مطابق بھاری زیورات اپنے جسم پر لادے ہوئی تھیں۔ اس سفر میں قوم نے کہیں پڑاؤ ڈالا تو انھوںنے ان زیورات کو اتار کر ایک جگہ ڈھیر کردیا۔ ان کے درمیان ایک سامری تھا جو مصر کی قدیم صنعت بت سازی کا تجربہ رکھتا تھا۔ اس نے ان زیورات کو پگھلایا اور ان سے بچھڑے جیسی ایک مورت بنا ڈالی۔ یہ بچھڑا اندرسے خالی تھا۔ اور اس طرح ہنر مندی سے بنایا گیا تھا کہ جب اس کے اندر سے ہوا گزرتی تو بیل کی ڈکار کی سی آواز آتی۔ سامری نے بنی اسرائیل کے جاہل عوام سے کہا کہ دیکھو تمهارا معبود تو یہ ہے جو یہاں موجود ہے۔ موسیٰ معبود کی تلاش میں معلوم نہیں کس پہاڑ پر چلے گئے۔ ہر زمانے کے ’’سامری‘‘ اسی طرح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ وہ کسی محسوس چیز کو نشانہ بنا کر اسی کو سب سے بڑا حق ثابت کرتے ہیں۔ اور الفاظ کے فریب میں آکر عوام کی ایک بھیڑ ان کے گرد جمع ہوجاتی ہے — محسوس پرستی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ خواہ وہ دور قدیم کا انسان ہو یا دور جدید کا انسان۔