Al-Hajj • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَٰتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا۟ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴾
“PERMISSION [to fight] is given to those against whom war is being wrongfully waged and, verily, God has indeed the power to succour them -:”
اللہ کا کوئی بندہ یا کوئی گروہ اپنے آپ کو اللہ کے راستے پر ڈالے تو وہ اس دنیا میں تنہا نہیں ہوتا۔ غافل اور سرکش لوگ جب اس کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں تو خدا ظالموں کے مقابلہ میں ان کی جانب کھڑاہوجاتا ہے۔ خدا ابتداء ً اپنا نام لینے والوں کے اخلاص کا امتحان لیتاہے۔ مگر جو لوگ امتحان میں پڑ کر اپنا مخلص ہونا ثابت کردیں خدا ضرور ان کی مدد پر آجاتاہے۔ اور ان کے ليے ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ وہ تمام رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے حق پر کار بند رہ سکیں۔ اہل ایمان کا اصل اقدام صرف دعوت ہے۔ وہ دعوت سے آغاز کرتے ہیں اور برابر دعوت ہی پر قائم رہتے ہیں۔ وہ بوقت ضرورت کبھی جنگ بھی کرتے ہیں مگر ان کی جنگ ہمیشہ دفاع کے ليے ہوتی ہے، نہ کہ جارحیت کے ليے۔ ایک گروہ اگر زیادہ مدت تک اقتدار پر رہے تو اس کے اندر سرکشی اور گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس ليے خدا نے اس دنیا میں ’’دفع‘‘ کا قانون مقرر کیا ہے۔ وہ بار بار ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کواقتدار کے مقام سے ہٹاتا ہے۔ اس طرح تاریخ میں سیاسی توازن قائم رہتا ہے۔ اگر خدا ایسا نہ کرے تو لوگوں کی سرکشی یہاں تک بڑھ جائے کہ عبادت خانے جیسے مقدس ادارے بھی ان کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہیں۔ اس دفع کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی گروہ کے اقتدار کو سرے سے ختم کردیا جائے۔ اس کی ایک مثال موجودہ زمانہ میں برطانیہ عظمیٰ کی ہے جس کو وطنی آزادی کی تحریکوں کے ذریعے ختم کیا گیا۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جس کی مثال روس اور امریکا کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یعنی ایک کے ذریعے دوسرے پر روک لگانا۔ اور اس طرح بین اقوامی سیاست میں توازن قائم رکھنا۔