Al-Hajj • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍۢ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَٰكُم مِّن تُرَابٍۢ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍۢ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍۢ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍۢ مُّخَلَّقَةٍۢ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍۢ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًۭا ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓا۟ أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍۢ شَيْـًۭٔا ۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةًۭ فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِيجٍۢ ﴾
“O MEN! If you are in doubt as to the [truth of] resurrection, [remember that,] verily, We have created [every one of] you out of dust, then out of a drop of sperm, then out of a germ-cell, then out of an embryonic lump complete [in itself] and yet incomplete so that We might make [your origin] clear unto you. And whatever We will [to be born] We cause to rest in the [mothers’] wombs for a term set [by Us], and then We bring you forth as infants and [allow you to live] so that [some of] you might attain to maturity: for among you are such as are caused to die [in childhood], just as many a one of you is reduced in old age to a most abject state, ceasing to know anything of what he once knew so well. And [if, O man, thou art still in doubt as to resurrection, consider this:] thou canst see the earth dry and lifeless - and [suddenly,] when We send down waters upon it, it stirs and swells and puts forth every kind of lovely plant!”
آخرت کی زندگی کے بارے میں آدمی کو اس ليے شبہ ہوتا ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انسان مرچکا ہوگا تو وہ کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کھڑا ہو جائے گا۔ مردہ کائنات دوبارہ زندہ کائنات کیسے بن جائے گی۔ اس شبہ کا جواب خود ہماری موجودہ دنیا کی ساخت میں موجودہے۔ موجوده دنیا کیا ہے۔ یہ ایک حالت کا دوسری حالت میں تبدیل ہوجانا ہے۔ وہ چیز جس کو ہم زندہ وجود کہتے ہیں وہ حقیقۃً غیرزندہ وجود کا تغیر ہے۔ انسانی جسم کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ لوہا، کاربن، کیلشیم، نمکیات، پانی اور گیسوں وغیرہ سے مل کر بنا ہے۔ انسانی وجود کے یہ مرکبات سب کے سب بے جان ہیں۔ مگر یہی غیر ذی روح مادے تبدیل ہو کر ذی روح اشیاء کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اور انسان کی صورت میں چلنے لگتے ہیں۔ پھر جو انسان ایک بار غیر زندہ سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ہے وہ اگر دوبارہ غیر زندہ سے زندہ ہیئت میں تبدیل ہوجائے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اسی طرح زمین کے سبزہ کو دیکھيے۔ مٹی یا دوسری جن چیزوں سے ترکیب پاکرسبزہ بنتا ہے وہ سب کی سب ابتداء ً ان خصوصیات سے خالی ہوتی ہیں جن کے مجموعہ کا نام سبزہ ہے۔ مگر یہی غیر سبزہ تبدیل ہو کر سبزہ بن جاتا ہے۔ تبدیلی کا یہ واقعہ روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہاہے۔ پھر اسی ہونے والے واقعے کا دوسری بار ہونا مستبعد کیوں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی دنیا کا وجود میں آنا خود ہی دوسری دنیا کے وجود میں آنے کا ثبوت ہے۔ ایک دنیا کا تجربہ کرنے کے بعد دوسری دنیا کو سمجھنا عقلی اور منطقی طورپر کچھ بھی مشکل نہیں۔