Al-Hajj • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لِّكُلِّ أُمَّةٍۢ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَٰزِعُنَّكَ فِى ٱلْأَمْرِ ۚ وَٱدْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًۭى مُّسْتَقِيمٍۢ ﴾
“UNTO every community have We appointed [different] ways of worship, which they ought to observe. Hence, [O believer,] do not let those [who follow ways other than thine] draw thee into disputes on this score, but summon [them all] unto thy Sustainer: for, behold, thou art indeed on the right way.”
عبادت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اندرونی حقیقت اور دوسرے اس کا ظاہری طریقہ۔ اندرونی حقیقت عبادت کا اصل جزء ہے اور ظاہری طریقہ اس کا اضافی جزء۔ مگر کوئی گروہ جب لمبی مدت تک اس پر کاربند رہتاہے تو وہ اس فرق کو بھول جاتاہے۔ وہ عبادت کی ظاہری تعمیل ہی کو اصل عبادت سمجھ لیتا ہے۔ اسی کا نام جمود (stagnation)ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جب وہ اگلا پیغمبر بھیجتا ہے تو وہ اس کی شریعت (ظاہری طریقہ) میں کچھ فرق کردیتاہے۔ اس فرق کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے جمود کو توڑا جائے۔ لوگوں کو ظاہرپرستی کی حالت سے نکال کر زندہ عبادت کرنے والا بنایا جائے۔ اب جولوگ ظاہری آداب وقواعد ہی کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہوں وہ پیغمبر کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ عبادت کی حقیقت کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کے کہنے پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ یہ تبدیلی ان کی عبادت میں نئی روح پیدا کردیتی ہے۔ وہ ان کو جامد ایمان کی حالت سے نکال کرزندہ ایمان کی حالت تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وہ خاص حکمت ہے جس کی بناپر ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے منسک (طریقِ عبادت) میں بعض فرق رکھا گیا۔ جب کوئی پیغمبر نیا منسک لایا تو جمود میں پڑے ہوئے لوگوں نے اس کے خلاف سخت اعتراضات نکالنے شروع کئے۔ مگر پیغمبروں کو یہ حکم تھا کہ وہ ان امور کو موضوع بحث نہ بننے دیں۔ وہ اصلی اور بنیادی تعلیمات پر اپنی ساری توجہ صرف کریں اور اس كي طرف لوگوں كو دعوت ديں۔