Al-Muminoon • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَٱتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّىٰٓ أَنسَوْكُمْ ذِكْرِى وَكُنتُم مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ ﴾
“- but you made them a target of your derision to the point where it made you forget all remembrance of Me; and you went on and on laughing at them.”
دنیا کی زندگی میں جب کہ ابھی آخرت کے حقائق آنکھوں کے سامنے نہیں آئے تھے۔ اس وقت خدا کے کچھ بندوں نے خدا کو اس کے جلال وکمال کے ساتھ پہچانا۔ ان کے سامنے حق کی دعوت مجرد دلائل کی سطح پر آئی۔ اس کے باوجود انھوں نے اس پر یقین کیا۔وہ اس کے بارے میں اس حد تک سنجیدہ ہوئے کہ اسی کو اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار بنا لیا۔ ایک اجنبی حق کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کی انھیں یہ قیمت دینی پڑی کہ ماحول میں وہ مذاق کا موضوع بن گئے۔ اس کے باوجود انھوں نے اس سے اپنی وابستگی کو ختم نہیں کیا۔ یہ فکری استقامت ہی سب سے بڑا صبر ہے اور آخرت کا انعام آدمی کو اسی صبر کی قیمت میں ملتا ہے۔ وہی لوگ در اصل کامیاب ہیں جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اس صبر کا ثبوت دے سکیں۔