Al-Muminoon • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَن يَدْعُ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ لَا بُرْهَٰنَ لَهُۥ بِهِۦ فَإِنَّمَا حِسَابُهُۥ عِندَ رَبِّهِۦٓ ۚ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلْكَٰفِرُونَ ﴾
“Hence, he who invokes, side by side with God, any other deity [- a deity] for whose existence he has no evidence - shall but find his reckoning with his Sustainer: [and,] verily, such deniers of the truth will never attain to a happy state!”
انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ کوئی انسان با اصول زندگی گزارتا ہے۔ اورکوئی بے اصول۔ کوئی اَن دیکھی صداقت کے ليے اپنے آپ کو قربان کردیتاہے اور کوئی صرف دکھائی دینے والی چیزوں میں مشغول رہتا ہے۔ کوئی حق کی دعوت کو اس کی ساری اجنبیت کے باوجود قبول کرتا ہے۔ اور کوئی اس کو نظر انداز کردیتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو ظلم سے روکتا ہے، صرف اس ليے کہ خدا نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ کوئی موقع پاتے ہی دوسروں کے ليے ظالم بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کا نفس اس سے ایسا ہی کرنے کے ليے کہہ رہا ہے۔ اگر اس دنیا کا کوئی انجام نہ ہو، اگر وہ اسی طرح چلتی رہے اور اسی طرح بالآخر اس کا خاتمہ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بے مقصد ہنگامہ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ مگر کائنات کی معنویت اس قسم کے بے معنیٰ نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ کائنات کا اعلیٰ نظام اس سے انکار کرتا ہے کہ اس کا خالق ایک غیر سنجیدہ ہستی ہو۔ کائنات اپنے وسیع نظام کے ساتھ جس خالق کا تعارف کرارہی ہے وہ ایک ایسا خالق ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ ایسے خالق کے بارے میں ناقابلِ قیاس ہے کہ وہ دو مختلف قسم کے انسانوں کا یکساں انجام ہوتے ہوئے دیکھے اور اس کو گوارا کرلے۔ یہ سراسر ناممکن ہے۔ یقیناً ایسا ہونے والا ہے کہ مالک کائنات ایک طبقہ کو بے قیمت کردے جس طرح انھوں نے حق کو بے قیمت کیا اور دوسرے طبقہ کی قدر دانی کرے جس طرح انھوں نے حق کی قدر دانی کی۔