Al-Muminoon • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِى مُنزَلًۭا مُّبَارَكًۭا وَأَنتَ خَيْرُ ٱلْمُنزِلِينَ ﴾
““And say: ‘O my Sustainer! Cause me to reach a destination blessed [by Thee] for Thou art the best to show man how to reach his [true] destination!’””
شرک سے بھرے ہوئے ماحول میں جو چند افراد حضرت نوح پر ایمان لائے وہ اسی دن معنوی اعتبار سے خدا کی کشتی میں داخل ہوچکے تھے۔ اس کے بعد جب طوفان کے وقت وہ لکڑی کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھے تو یہ گویا ان کے ابتدائی فیصلے کی تکمیل تھی۔ انھوں نے اپنے آپ کو فکری طورپر بدی کے طوفان سے بچایا تھا۔ خدا نے ان کو عملی طورپر بدی کے سخت انجام سے بچا لیا۔ مومن ہر کامیابی کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے۔ اس ليے وہ ہر کامیابی پر خدا کا شکر ادا کرتاہے۔ اور طوفان نوح سے نجات تو کھلا ہوا خدائی نصرت کا واقعہ تھا۔ ایسے موقع پر مومن کی زبان سے جو کلمات نکلتے ہیں وہ وہي ہیں جن کی ایک تصویر مذکورہ آیت میں نظر آتی ہے۔ وہ حال کے ليے خدا کی قدرت کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل کے ليے مزید عنایت کی التجا کرنے لگتا ہے، کیوں کہ اس کو یقین ہوتاہے کہ حال بھی خدا کے قبضہ میں ہے اور مستقبل بھی خداکے قبضہ میں۔