Al-Muminoon • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ثُمَّ أَنشَأْنَا مِنۢ بَعْدِهِمْ قُرُونًا ءَاخَرِينَ ﴾
“AND AFTER them We gave rise to new generations:”
پیغمبروں کے بعد ہمیشہ ان کی امتوں میں بگاڑ آتا رہا۔ ان کی اصلاح کے ليے بار بار پیغمبر بھیجے گئے — امت آدم میں حضرت نوح آئے۔ اس کے بعد امت نوح (عاد) میں حضرت ہود آئے۔ پھر امت ہود (ثمود) حضرت صالح آئے، وغیرہ۔ مگر ہر بار یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ماضی کے پیغمبر کو بلا بحث مانے ہوئے تھے وہ حال کے پیغمبر کو کسی طرح ماننے پر تیار نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کا پیغمبر طویل روایات کے نتیجے میں قومی فخر کا نشان بن جاتا ہے۔ وہ قوموں کے ليے ان کی قومی تشخص کی علامت ہوتا ہے۔ وہ ان کے ليے قومی ہیرو کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس کو مان کر آدمی کے احساس برتری کو تسکین ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے پیغمبر کو کون نہیں مانے گا۔ مگر حال کے پیغمبر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتاہے۔ حال کے پیغمبر کے ساتھ اس کی تاریخ وابستہ نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ عظمت اور تقدس کی روایت شامل نہیں ہوتی۔ اس کو ماننا صرف ایک معنوی حقیقت کے اعتراف کے ہم معنی ہوتا ہے، نہ کہ کسی ہمالیائی عظمت سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے پیغمبروں کو ماننے والے ہمیشہ حال کے پیغمبر کا انکار کرتے رہے۔ ’’دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے‘‘— اس کو لفظ بدل کر کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دور ہوں وہ لوگ جو خدا کے سفیر کو خدا کے سفیر کی حیثیت سے نہیں پہچان پاتے۔ وہ خدا کے سفیر کو صرف اسی وقت پہچانتے ہیں جب کہ تاریخی عمل کے نتیجے میں وہ ان کا قومی ہیرو بن چکا ہو۔