Al-Muminoon • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أُو۟لَٰٓئِكَ يُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٰتِ وَهُمْ لَهَا سَٰبِقُونَ ﴾
“it is they who vie with one another in doing good works, and it is they who outrun [all others] in attaining to them!”
جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتاہے ۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائلِ خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھودے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔ موجودہ دنیا میں دوڑ دھوپ کی دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک دنیا کی راہ اور دوسری آخرت کی راہ۔ جن لوگوں کے اندر مذکورہ صفات پائی جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی طرف دوڑنے والے ہیں۔ تاہم آخرت کی طرف دوڑنا موجودہ دنیا میں ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں انسان سے طرح طرح کی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر آدمی سے اس کی طاقت کے بقدر ہے، نہ کہ طاقت سے زیادہ۔ ہر آدمی کی استطاعت اور اس کا کارنامہ دونوں کامل طورپر خدا کے علم میں هيں۔ اور یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ قیامت میں ہر شخص کو وہ رعایت ملے جو ازروئے انصاف اسے ملنی چاہیے۔ اور ہر شخص وہ انعام پائے جس کا وہ فی الواقع مستحق تھا۔