Al-Muminoon • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَوِ ٱتَّبَعَ ٱلْحَقُّ أَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ ٱلسَّمَٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَٰهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ ﴾
“But if the truth were in accord with their own likes and dislikes, the heavens and the earth would surely have fallen into ruin, and all that lives in them [would long ago have perished]! Nay, [in this divine writ] We have conveyed unto them all that they ought to bear in mind: and from this their reminder they [heedlessly] turn away!”
حق وہ ہے جو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ مگر خواہش پرست انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ حق کو اس کی خواہش کے تابع کردیا جائے۔ اس قسم کے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ داعی جب حق بات کہتا ہے تو وہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ وہ حق کے تابع نہیں بننا چاہتے۔ اس ليے وہ چاہنے لگتے ہیں کہ حق کو ان کے تابع کردیا جائے۔ اپنی اس نفسیات کی بنا پر وہ حق کی آواز پر دھیان نہیں دیتے۔ حق ان کو اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ وہ داعی حق کو اس کی اصل حیثیت میں پہچان نہیں پاتے۔ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے وہ داعی کو مطعون کرنے لگتے ہیں۔ کائنات میں کامل درستگی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا میں ہر طرف فساداور بگاڑ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ یعنی وہی ہونا جو ہونا چاہيے، اور وہ نہ ہونا جو نہ ہونا چاہيے۔ اب اگر کائنات کا نظام بھی انسان کی خواہشوں پر چلنے لگے تو جو فساد انسانی دنیا میں ہے وہی فساد بقیہ کائنات میں بھی برپا ہوجائے گا۔ نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے ليے سب سے زیادہ تلخ چیز ہوتی ہے۔ بہت ہی کم وہ خداکے بندے ہیں جو نصیحت اور تنقید کو کھلے ذہن کے ساتھ سنیں۔ بیشتر لوگ اس کو نظر انداز کرکے گزر جاتے ہیں۔