Al-Muminoon • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَٰطٍۢ مُّسْتَقِيمٍۢ ﴾
“And, verily, thou callest them onto a straight way –”
پیغمبر اپنے مخاطبین سے کبھی مالی غرض نہیں رکھتا۔ پیغمبر اور اس کے مخاطبین کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہوتا ہے۔ داعی اور مدعو کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔ داعی اگر ایک طرف لوگوں کو آخرت کا پیغام دے اور اسی کے ساتھ وہ ان سے دنیا کے مطالبات بھی چھیڑے ہوئے ہو تو اس کی دعوت لوگوں کی نظر میں مذاق بن کررہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کسی بھی حال میں اپنے مدعو سے کوئی مادی مطالبہ نہیں کرتا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو یک طرفہ طور پر ہر قسم کا نقصان برداشت کرنا پڑے۔ داعی کا اصل معاوضہ خود وہ حق ہوتا ہے جس کو لے کر وہ کھڑا ہوا ہے۔ خدا کی دریافت اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے۔ داعیانہ زندگی گزارنے کے نتیجہ میں اس کو جو ربانی تجربات ہوتے ہیں وہ اس کی روح کو سب سے بڑی غذا فراہم کرتے ہیں۔ اعلیٰ ترین مقصد کے ليے سرگرم رہنے سے جو لذت ملتی ہے وہ اس کی تسکین كا سب سے بڑا سامان ہوتی ہے۔ حق کی دعوت کو وہی شخص مانے گا جس کو آخرت کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ آخرت کا احساس آدمی کو سنجیدہ بناتا ہے اور سنجیدگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حقیقت کو مانے۔ جو شخص سنجیدہ نہ ہو وہ کبھی حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا، خواہ اس کو دلائل سے کتنا ہی زیادہ ثابت شدہ بنادیا جائے۔