An-Noor • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَّوْلَا جَآءُو عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا۟ بِٱلشُّهَدَآءِ فَأُو۟لَٰٓئِكَ عِندَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلْكَٰذِبُونَ ﴾
“why do they not [demand of the accusers that they] their allegation? for, if they do not produce such witnesses, it is those [accusers] who, in the sight of God, are liars indeed!”
ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان کرے۔ دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنا خود اپنے بد نفسی کا ثبوت ہے۔ اور دوسرے کے بارے میں نیک گمان کرنااپنی نیک نفسی کا ثبوت۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی کے بارے میں بری خبر دے تو فوراً اس سے ثبوت کا مطالبہ کیا جائے۔ جو شخص سنے وہ محض سن کر اس کو دہرانے نہ لگے بلکہ وہ خبر دینے والے سے کہے کہ اگر تم سچے ہو تو شریعت کے مطابق گواہ لے آؤ۔ اگر وہ گواہ لے آئے تو اس کی بات قابلِ لحاظ ہوسکتی ہے۔ اور اگر وہ اپنی بات کے حق میں گواہ نہ لائے تو وہ خود سب سے بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ کسی شخص کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ بلا ثبوت کسی کے اوپر عیب لگانے لگے۔