slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 35 من سورة سُورَةُ النُّورِ

An-Noor • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ ٱللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِۦ كَمِشْكَوٰةٍۢ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ ٱلْمِصْبَاحُ فِى زُجَاجَةٍ ۖ ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌۭ دُرِّىٌّۭ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍۢ مُّبَٰرَكَةٍۢ زَيْتُونَةٍۢ لَّا شَرْقِيَّةٍۢ وَلَا غَرْبِيَّةٍۢ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِىٓءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌۭ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍۢ ۗ يَهْدِى ٱللَّهُ لِنُورِهِۦ مَن يَشَآءُ ۚ وَيَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَٰلَ لِلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌۭ ﴾

“God is the Light of the heavens and the earth. The parable of His light is, as it were, that of a niche containing a lamp; the lamp is [enclosed] in glass, the glass [shining] like a radiant star: [a lamp] lit from a blessed tree - an olive-tree that is neither of the east nor of the west the oil whereof [is so bright that it] would well-nigh give light [of itself] even though fire had not touched it: light upon light! God guides unto His light him that wills [to be guided]; and [to this end] God propounds parables unto men, since God [alone] has full knowledge of all things.”

📝 التفسير:

یہ ایک مرکب تمثیل ہے۔ اس آیت میں روشنی سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے۔ طاق سے مراد انسان کا دل ہے اور چراغ سے مراد ایمان کی استعداد ہے۔ شیشہ اور تیل اسی استعداد کی مزید خصوصیت کو بتارہے ہیں۔شیشہ اس بات کی تعبیر ہے کہ یہ استعداد قلبِ انسانی میں اس طرح رکھی گئی ہے کہ وہ خارجی اثرات سے پوری طرح محفوظ رہے۔ اور شفاف تیل اس بات کی تعبیر ہے کہ اس کی یہ استعداد اتنی قوی ہے کہ وہ بے تاب ہورہی ہے کہ کب اس کے سامنے حق آئے اور وہ اس کو بلا تاخیر قبول کرلے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کائنات میں روشنی کا واحد ماخذ صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ اسی سے ہر ایک کوروشنی اور ہدایات ملتی ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر فطری طورپر حق کی طلب موجود ہے۔ یہ طلب بے حد طاقت ور ہے۔ اور اگر اس کو ضائع نہ کیا جائے تو وہ ہر آن اپنا جواب پانے کے ليے بے تاب رہتی ہے۔ باعتبار فطرت انسان کی استعدادِ قبول اتنی بڑھی ہوئی ہے گویا وہ کوئی پٹرول ہے کہ آگ اگر اس کے قریب بھی لائی جائے تو وہ فوراً بھڑک اٹھے۔ مومن وہ حقیقی انسان ہے جس نے اپنی فطری استعداد کو ضائع نہیں کیا۔ چنانچہ حق کی دعوت سامنے آتے ہی اس کی استعداد جاگ اٹھی۔ نور فطرت کے ساتھ نور ہدایت نے مل کر اس کے پورے وجود کو روشن کردیا۔