An-Noor • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلطَّيْرُ صَٰٓفَّٰتٍۢ ۖ كُلٌّۭ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُۥ وَتَسْبِيحَهُۥ ۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌۢ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴾
“ART THOU NOT aware that it is God whose limitless glory all [creatures] that are in the heavens and on earth extol, even the birds as they spread out their wings? Each [of them] knows indeed how to pray unto Him and to glorify Him; and God has full knowledge of all that they do:”
انسان سے خدا کا جو مطالبہ ہے اس کو لفظ بدل کر کہیں تو وہ یہ ہے کہ انسان ویسا ہی رہے جیسا کہ از روئے حقیقت اسے رہنا چاہيے۔ یہی دین حق ہے۔ اس اعتبار سے ساری کائنات دین حق پر ہے۔ کیوں کہ اس کائنات کی ہر چیز عین اسی طرح عمل کرتی ہے جیسا کہ فی الواقع اسے عمل کرنا چاہيے۔ انسان کے سوا اس کائنات میں کوئی بھی چیزنہیں جس کے عمل میں اور حقیقت واقعہ میں کوئی ٹکراؤ ہو۔ انھیں بے شمار چیزوں میں سے ایک مثال چڑیا کی ہے۔ چڑیا جب اپناپر پھیلائے ہوئے فضا میں اڑتی ہے تو وہ اسی حقیقت کا ایک کامل نمونہ ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہ ابدی حقیقت کی دنیا میں کامل موافقت کرکے تیر رہی ہو۔ گویا اس نے اپنے انفرادی وجود کو حقائق کے وسیع تر سمندر میں گم کردیا ہو۔ ہر ایک کی ایک تسبیح ِخداوندی ہے اور وہی اس سے مطلوب ہے۔ اسی طرح انسان کی ایک تسبیح ِخداوندی ہے اور وہ اس سے مطلوب ہے۔ انسان اگر اس معاملہ میں غفلت یا سرکشی کا رویہ اختیار کرے تو اس وقت اس کو اس کی سخت قیمت ادا کرنی ہوگی جب خدا کے ساتھ اس کا سامنا پیش آئے گا۔