An-Noor • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَإِن يَكُن لَّهُمُ ٱلْحَقُّ يَأْتُوٓا۟ إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ ﴾
“but if the truth happens to be to their liking, they are quite willing to accept it!”
قدیم مدینہ میںایک طبقہ وہ تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا مگر وہ اسلام کے معاملہ میں مخلص نہ تھا۔ اس گروہ کو منافق کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ زبان سے تو خدا ورسول کی اطاعت کے الفاظ بولتے تھے مگر جب تجربہ پیش آتا تو وہ خود اپنے عمل سے اپنے اس دعوے کی تردید کردیتے۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں باقاعدہ نوعیت کی اسلامی عدالت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ وہاں ایک طرف یہودی سردار تھے جو سیکڑوں سال سے رواجی طورپر لوگوں کے فیصلے کرتے چلے آرہے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔ منافقین کا حال یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان سے ان کی نزاع ہو جائے اور وہ کہے کہ چلو رسول اللہ کے یہاں اس کا فیصلہ کرالو تو مذکورہ منافق اس کے ليے صرف اس صورت میں راضی ہوتا تھا، جب کہ اس کو یقین ہوتا کہ مقدمے کی نوعیت ایسی ہے کہ فیصلہ اس کے اپنے حق میں ہوجائے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ کہتا کہ فلاں یہودی سردار کے یہاں چلو اور اس سے فیصلہ کرالو۔ یہ بظاہر ہوشیاری ہے مگر یہ خود اپنے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس طرح جیتنے والے آخرت میں اس حال میں پہنچیں گے کہ وہ اپنا مقدمہ بالکل ہارچکے ہوں گے۔