An-Noor • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَّا تَجْعَلُوا۟ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُم بَعْضًۭا ۚ قَدْ يَعْلَمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًۭا ۚ فَلْيَحْذَرِ ٱلَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِۦٓ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾
“DO NOT regard the Apostles summons to you [in the same light] as a summons of one of you to another: God is indeed aware of those of you who would withdraw surreptitiously: so let those who would go against His bidding beware, lest a [bitter] trial befall them [in this world] or grievous suffering befall them [in the life to come].”
یہاں جس اطاعتِ رسول کا ذکر ہے اس کا تعلق رسول کی زندگی میں رسول سے تھا۔ رسول کے بعد اس کا تعلق ہر اس شخص سے ہے جو مسلمانوں کے معاملہ کا ذمہ دار بنایا جائے۔ اجتماعی معاملات میں اپنا حصہ ادا کرنے سے جو لوگ کترائیں وہ بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اجتماعی کام میں وقت ضائع نہ کرکے اپنے انفرادی معاملہ کو مضبوط کررہے ہیں۔ مگر جو گروہ اجتماعیت کو کھو دے اس کے دشمن اس کے اندر گھسنے کی راہ پالیتے ہیں۔ اس طرح جو بربادی آتی ہے وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عمومی بربادی ہوتی ہے۔ اس کا نقصان ہر ایک کو پہنچتا ہے، حتی کہ اس کو بھی جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے ذاتی معاملات میں پوری توجہ لگا کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے۔ آدمی جب اس قسم کی کمزوری دکھاتا ہے تو بطور خود وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے انسانوں کے ساتھ کررہاہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرر ہا ہوتا ہے وہ خدا کے ساتھ کررہا ہوتاہے۔ اگر یہ احساس زندہ ہو تو آدمی کبھی اس قسم کی بے اصولی کی جرأت نہ کرے۔