Al-Furqaan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ وَهُوَ ٱلَّذِى مَرَجَ ٱلْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌۭ فُرَاتٌۭ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌۭ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًۭا وَحِجْرًۭا مَّحْجُورًۭا ﴾
“AND HE it is who has given freedom of movement to the two great bodies of water – the one sweet and thirst-allaying, and the other salty and bitter - and yet has wrought between them a barrier and a forbidding ban.”
جب کسی سنگم پر دو دریا ملتے ہیں یا کوئی بڑا دریا سمندر میں جاکر گرتاہے تو ایسے مقام پر باہم ملنے کے باوجود دونوں پانی الگ الگ رہتا ہے۔ دونوں کے بیچ میں ایک دھاری دور تک جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ راقم الحروف نےیہ منظر الٰہ آباد میں گنگا اور جمنا کے سنگم پر دیکھا ہے۔ یہ واقعہ اس قدرتی قانون کے تحت ہوتا ہے جس کو موجودہ زمانہ میں سطحی تناؤ (surface tension) کہاجاتا ہے۔ اسی طرح جب سمندر میں جوار بھاٹا آتا ہے تو سمندر کا کھاری پانی ساحلی دریا کے میٹھے پانی کے اوپر چڑھ جاتاہے۔ مگر سطحی تناؤ دونوں پانی کو بالکل الگ رکھتا ہے۔اور جب سمندر کا پانی دوبارہ اترتا ہے تو اس کا کھاری پانی اوپر اوپر سے واپس چلا جاتاہے اور نیچے کا میٹھا پانی بدستور اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتا ہے۔ حتی کہ اسی سطحی تناؤ کے قانون کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے کہ کھاری سمندروں کے عین بیچ میں میٹھے پانی کے ذخیرے موجود رہیں اور بحری مسافروں کو میٹھا پانی فراہم کرسکیں۔ انسانی جسم کی اصل پانی ہے۔ پانی سے انسان جیسی حیرت انگیز نوع بنی۔ پھر نسبی تعلقات اور سسرالی روابط کے ذریعے اس کی نسل چلتی رہی— اس طرح کے مختلف واقعات جو زمین پر پائے جاتے ہیں ان پر غور کیا جائے تو ان میں خدا کی قدرت کی نشانیاں چھپی ہوئی نظر آئیں گی۔