Al-Furqaan • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَقَالُوا۟ مَالِ هَٰذَا ٱلرَّسُولِ يَأْكُلُ ٱلطَّعَامَ وَيَمْشِى فِى ٱلْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌۭ فَيَكُونَ مَعَهُۥ نَذِيرًا ﴾
“Yet they say: What sort of apostle is this [man] who eats food [like all other mortals] and goes about in the market places? Why has not an angel [visibly] been sent down unto him, to act as a warner together with him?””
حق کے ہر داعی کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ اس کے زمانہ کے لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا۔ اور بعد کے لوگوں نے اس کی پرستش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں وہ اپنی حقیقی شخصیت کے ساتھ لوگوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس ليے وہ انھیں بس ایک عام انسان کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ مگر بعد کو اس کی شخصیت کے گرد افسانوی قصوں کا ہالہ بن جاتا ہے۔ بعد کے لوگ اس کو مبالغہ آمیز روپ میں دیکھتے ہیں۔ اس ليے بعد کے لوگ مبالغہ آمیز حد تک اس کی تعظیم وتقدیس کرنے لگتے ہیں۔ بعد کے زمانے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیغمبر کی غیر معمولی عظمت قائم ہوجاتی ہے۔ اس ليے کوئی بڑا اپنے آپ کو پیغمبر سے بڑا نہیں پاتا۔ مگر پیغمبر کی زندگی میں اس کی جو ظاہری صورت حال ہوتی ہے وہ وقت کے بڑوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ پیغمبر کے مقابلہ میں متکبرانہ نفسیات میں مبتلا ہوسکیں۔ ایسے لوگ جب کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ پیغمبر کی باتوں کو سن کر متاثر ہورہے ہیں تو وہ ان کے تاثر کو گھٹانے کے ليے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ایک مجنون ہے، یہ تو ایک سحر زدہ انسان ہے، وغیرہ۔ وہ دلیل کے میدان میں اپنے آپ کو عاجز پاکر عیب لگانے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ حالاں کہ دلیل کے ذریعہ کسی کو ردکرنا عین درست ہے جب کہ عیب لگا کر کسی کو بدنام کرنا سراسر نادرست۔