Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قَالَ رَبِّ إِنِّىٓ أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ ﴾
“He answered: “O my Sustainer! Behold, I fear that they will give me the lie,”
حضرت موسیٰ کو مصر کے فرعون پر دین توحید کی تبلیغ کرنی تھی جو اپنے زمانہ میںدنیا کی سب سے بڑی اور سب سے متمدن سلطنت کا بادشاہ تھا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے فرزند تھے جن کی حیثیت اس وقت کے مصر میں غلاموں اور مزدوروں جیسی تھی۔ قوم فرعون کا ایک شخص حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے بلاارادہ ہلاک ہوگیا تھا۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ اپنے اندر قوت بیان کی کمی محسوس فرماتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے ليے حضرت موسیٰ کا انتخاب فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ خداظاہر سے زیادہ آدمی کے باطن کو دیکھتاہے۔ اور اگر کسی کے اندر باطنی جوہر موجود ہو تو اسی باطنی جوہر کی بنیاد پر اس کو اپنے دین کے لیے منتخب فرما لیتاہے۔ باطنی جو ہر آدمی کو خود پیش کرنا پڑتاہے۔ اس کے بعد اگر باعتبار ظاہر کچھ کمی ہو تو وہ خدا کی طرف سے پوری کردی جاتی ہے۔