Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَتِلْكَ نِعْمَةٌۭ تَمُنُّهَا عَلَىَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ﴾
“And [as for] that favour of which thou so tauntingly remindest me - [was it not] due to thy having enslaved the children of Israel?””
حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور عصا اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔ فرعون نے آپ کی اہمیت گھٹانے کے ليے اس وقت آپ کی سابقہ زندگی کی دو باتیں یاد دلائیں۔ ایک، بچپن میں حضرت موسیٰ کا فرعون کے گھر میں پرورش پانا۔ دوسري، ایک قبطی کا قتل۔ حضرت موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تمھارے گھر میں میری پرورش کی نوبت خود تمھارے ظلم کی وجہ سے آئی۔ تم چوں کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کررہے تھے اس ليے میری ماں نے یہ کیا کہ مجھ کو ٹوکری میں رکھ کر بہتے دریا میں ڈال دیا۔ اور اس کے بعد خود تم نے مجھے دریا سے نکالا اور مجھ کو اپنے گھر میں رکھا۔ جہاں تک قبطی کے قتل کا معاملہ ہے تو وہ میں نے ارادۃً نہیں کیا۔ میں نے اپنے اسرائیلی بھائی کی طرف سے قبطی کی جارحیت کا دفاع کیا تھا اور وہ اتفاقاً مرگیا۔ حضرت موسیٰ قبطی کے قتل کے بعد مصر کو چھوڑ کر مدین چلے گئے تھے۔ وہاں وہ کئی برس تک رہے۔ شہر کی مصنوعی فضا سے نکل کر دیہات کی فطری فضا میں چند سال گزارنا شاید آپ کی تربیت کے ليے ضروری تھا۔ چنانچہ مدین سے نکل کر جب آپ دوبارہ مصر جانے لگے تو راستہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔