Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يُلْقُونَ ٱلسَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَٰذِبُونَ ﴾
“who readily lend ear [to every falsehood], and most of whom lie to others as well.”
پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔ شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔