Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ لَعَلَّكَ بَٰخِعٌۭ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا۟ مُؤْمِنِينَ ﴾
“Wouldst thou, perhaps, torment thyself to death [with grief] because they [who live around thee] refuse to believe [in it]?”
حق کی دعوت جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کلام مبین میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی دعوت کے خدائی دعوت ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ اس کی ہر بات واضح ہو۔ اس کی ہر بات کھلے ہوئے دلائل پر مبنی ہو ایک شخص اس کا انکار تو کرسکے مگر کوئی شخص واقعی طورپر یہ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہو کہ اس کا پیغام میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے‘‘ کاجملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو داعی کو مدعو کے حق میں ہوتی ہے۔ دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبہ سے ابلتا ہے۔ اس ليے داعی جب دیکھتاہے کہ مدعو اس کے پیغام کو نہیں مان رہا ہے تو وہ اس کے غم میںاس طرح ہلکان ہونے لگتاہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی بھلائی کے ليے ہلکان ہوتی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ داعیِ قرآن کی خیر خواہانہ کیفیت کی تصدیق ہے، نہ کہ اس پر تنقید۔ حق کی دعوت خدا کی دعوت ہوتی ہے۔ خدا وہ طاقت ور ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کسی کے ليے انکار و سرکشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ صورت حال خود خدا کے اپنے منصوبہ کی بناپر ہے۔ خدا کو اپنی جنت میں بسانے کے ليے وہ قیمتی انسان درکار ہیں جو فریب سے بھری ہوئی دنیا میں حق کو پہچانیں اور کسی دباؤ کے بغیر اس کے آگے جھک جائیں۔ ایسے انسانوں کا چناؤ ایسے ہی حالات میں کیا جاسکتا تھا جہاں ہر انسان کو فکر وعمل کی پوری آزادی دی گئی ہو۔