Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَٰيَٰنَآ أَن كُنَّآ أَوَّلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ﴾
“Behold, we [but] ardently desire that our Sustainer forgive us our faults in return for our having been foremost among the believers!””
جادوگروں کا حضرت موسیٰ پر ایمان لانا فرعون کے ليے زبردست رسوائی کا باعث تھا۔ اس نے اس کے ازالہ کے ليے یہ کیا کہ اس پورے واقعہ کو سازش قرار دے دیا۔ اس نے کہا کہ تم لوگ موسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ اور تم نے جان بوجھ کر ان کے مقابلہ میں اپنی شکست کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ موسیٰ کی بڑائی لوگوں کے دلوں پر قائم ہو اور تمھارے ليے اپنا مقصد حاصل کرنا آسان ہوجائے۔ فرعون نے جادوگروں کو اپنا یہ فیصلہ سنایا کہ تم لوگوں کو بغاوت کی سزا دی جائے گی۔ تمھارے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ کر تم کو برسر عام سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ اس شدید حکم کے باوجود جادو گر بے ہمت نہیں ہوئے۔ وہی جادو گر جو پہلے (آیت 41 ) فرعون کے اقبال کی قسم کھارہے تھے اوراس سے انعام واکرام کی درخواست کررہے تھے انھوںنے بالکل بے خوف ہو کر کہا کہ تم جو چاہے کرو اب موسیٰ کے دین سے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اس عالی، ہمتی کا سبب ایمانی دریافت تھی۔ آدمی کسی چیز کا کھونا اس وقت برداشت کرتاہے جب کہ اس کو کھو کر وہ زیادہ بڑی چیز پارہا ہو۔ ایمان سے پہلے جادوگروں کے پاس سب سے بڑی چیز فرعون اور اس کا انعام تھا۔ مگر ایمان کے بعد ان کو خدا اور اس کی جنت سب سے بڑی چیز نظر آنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان سے پہلے جس چیز کی قربانی وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے ایمان کے بعد نہایت خوشی سے وہ اس کی قربانی دینے پر راضی ہوگئے۔