Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قَالُوا۟ نَعْبُدُ أَصْنَامًۭا فَنَظَلُّ لَهَا عَٰكِفِينَ ﴾
“They answered: We worship idols, and we remain ever devoted to them.””
ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تھی کہ اس نے باپ دادا کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا وہی خود بھی کرنے لگی۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم تھے جنھوںنے خود اپنی عقل سے سوچا۔ انھوںنے ماحول سے اوپر اٹھ کر سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ صفت خاص ہے جو آدمی کو خدا کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور اسی صفت میں جو کمال درجہ پر ہو اس کو خدا اپنے دین کی پیغام بری کے ليے منتخب فرماتا ہے۔ ’’ہم اپنے بتوں پر جمے رہیںگے‘‘ کے الفاظ بتاتے هيںکہ حضرت ابراہیم سے گفتگو میں انھوںنے اپنے آپ کو بے دلیل پایا۔ اس کے باوجود وہ ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ دلیل کی سطح پر شکست کھانے کے باوجود وہ تعصب کی سطح پر اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔