Ash-Shu'araa • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَٱجْعَل لِّى لِسَانَ صِدْقٍۢ فِى ٱلْءَاخِرِينَ ﴾
“and grant me the power to convey the truth unto those who will come after me,”
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ کو خبر دی کہ تمھاری قوم فتنہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو وہ شدید جذبات میںبھرے ہوئے قوم کی طرف واپس آئے۔ انھوںنے ان کو یاد دلایا کہ ابھی ابھی خدا نے تمھارے اوپر اتنے احسانات کيے ہیں اور اپنی اتنی زیادہ نشانیاں تمھارے لیے ظاہر کی ہیں۔ پھر کیسے تم اتنی جلد سب بھول کر گمراہی میں پڑ گئے۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے لیے اللہ کی کتاب لینے گئے۔ اور بنی اسرائیل کی بڑی تعداد کچھ لوگوں کی باتوں ميں آکر غیر اللہ کی پرستش میں مصروف ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بنی اسرائیل مصر کے مشرکانہ ماحول سے کتنا زیادہ متاثر ہوچکے تھے۔ اور کیوں یہ ضروری ہوگیاتھا کہ دوبارہ توحید کا پرستار بنانے کے لیے انھیں مصر کے ماحول سے نکال کر باہر لے جایا جائے۔ حضرت موسیٰ نے فرعون کے مقابلہ میں جو کچھ کیا وہ دعوت دین کا کام تھا۔ اور آپ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ تحفظ دین کا کام۔ دونوں کام آپ نے ساتھ ساتھ انجام دئے۔ اس سے دونوں کاموں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ مسلمان اگر بگڑے ہوئے ہوں تو اس بنا پر دعوتِ عام کا کام روکا نہیں جاسکتا۔ اور اگر دعوت عام کا کام کرنا ہو تو وہ اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ داخلی اصلاح کا کام بند کردیاجائے۔